Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
158. Chapter: The staying of the Imam at his Musalla (praying place) after (finishing the prayer with) Taslim
باب: سلام کے بعد امام اسی جگہ ٹھہر کر(نفل وغیرہ)پڑھ سکتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The staying of the Imam at his Musalla (praying place) after (finishing the prayer with) Taslim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
860.
حضرت نافع سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اسی جگہ پر نفل وغیرہ پڑھتے جہاں پہلے فرض نماز ادا کی ہوتی۔ حضرت قاسم (ابن محمد بن ابی بکر صدیق) نے بھی ایسے ہی کیا تھا، البتہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرفوعا بیان کیا جاتا ہے کہ امام اسی جگہ نفل نماز نہ پڑھے جہاں اس نے فرض نماز ادا کی تھی، لیکن یہ حدیث صحیح نہیں۔
تشریح:
(1) امام جب نماز سے فراغت کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتا ہے تو وہ حسب ضرورت جو چاہے کر سکتا ہے۔ اس کا مصلے پر ٹھہرے رہنا کسی خاص کیفیت کے ساتھ مقید نہیں، وہ ذکر و دعا میں خود کو مصروف کرے یا دعوت و ارشاد کا فریضہ ادا کرے یا سنن و نوافل ادا کرے، چنانچہ اس عنوان کے تحت امام بخاری ؒ نے امام کا اسی جگہ پر نفل پڑھنے کا جواز ثابت کیا ہے اور بطور دلیل حضرت ابن عمر ؓ کا عمل پیش کیا ہے، نیز بتایا ہے کہ حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر بھی ایسا کرتے تھے۔ اس اثر کو امام ابن ابی شیبہ نے متصل سند کے ساتھ اپنی کتاب "المصنف" میں بیان کیا ہے۔ حضرت عبیداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم اور حضرت سالم کو دیکھا وہ پہلے فرض نماز ادا کرتے پھر اسی جگہ پر نوافل پڑھتے تھے۔ (المصنف لابن أبي شیبة، (باب) من رخص أن یتطوع في مکانه :23/2) (2) امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو بالمعنی بیان کیا ہے۔ ابوداود میں یہ روایت بایں الفاظ مروی ہے: ’’کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ نفل پڑھنے کے لیے اپنی جگہ سے آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہو کر پڑھے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1006) سنن بیہقی میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے: ’’اگر کوئی فرض نماز کے بعد نفل پڑھنا چاہے تو آگے ہو کر انہیں ادا کرے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیھقي:190/2) امام بخاری ؒ نے حدیث ابو ہریرہ کے متعلق فیصلہ کیا ہے کہ وہ صحیح نہیں کیونکہ اس کے متن میں اضطراب اور سند میں کمزوری ہے جس کی تفصیل انہوں نے اپنی تصنیف، تاریخ الکبیر میں بیان کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔ اس طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’امام اس جگہ نفل نماز نہ پڑھے جہاں وہ فرض پڑھا چکا ہے، اسے چاہیے کہ وہاں سے دوسری طرف ہٹ کر نفل پڑھے۔‘‘ لیکن اس کی سند منقطع ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:616 وفتح الباري:433/2) (3) مختلف احادیث کے پیش نظر امام کی مختلف حالتیں ہیں: ٭ جس نماز سے سلام پھیر کر فارغ ہوا ہے اس کے بعد سنن و نوافل بھی ہیں۔ ٭ جس نماز سے سلام پھیر کر فارغ ہوا ہے اس کے بعد نوافل یا سنتیں وغیرہ نہیں ہیں جیسا کہ نماز فجر میں ہے۔ پہلی صورت میں اختلاف ہے کہ پہلے مسنون وظائف کیے جائیں یا نوافل وغیرہ ادا کیے جائیں؟ جمہور کا موقف ہے کہ پہلے وظائف پڑھے جائیں پھر نوافل ادا کیے جائیں، اگر وظائف کے بجائے جگہ بدل لی جائے تو بھی کافی ہے جیسا کہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت معاویہ ؓ کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کی، جماعت کے بعد سنت پڑھنے لگا تو حضرت معاویہ ؓ نے کہا کہ جمعہ کی نماز کے بعد دوسری نماز اس وقت تک نہ پڑھی جائے جب تک گفتگو یا وظائف وغیرہ نہ کر لیے جائیں یا جگہ نہ بدل لی جائے۔ اس حدیث کے پیش نظر نوافل وغیرہ پڑھنے کے لیے صرف جگہ بدل لینا ہی کافی ہے۔ دوسری صورت جس میں نماز کے بعد سنن و نوافل نہیں ہیں تو اس صورت میں امام اور مقتدی کو چاہیے کہ وہ خود کو مسنون وظائف میں مشغول رکھیں۔ اس کے لیے کسی جگہ کو متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی مرضی ہے کہ وہ نماز کے بعد وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے وظائف مکمل کریں یا وہاں سے کسی دوسری جگہ پر انہیں پڑھ لیں۔ اگر وہیں اپنے وظائف پورے کرنے ہیں اور امام انہیں وعظ و نصیحت کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ مقتدیوں کی طرف پوری طرح متوجہ ہو کر یہ فریضہ سر انجام دے۔ (وفتح الباري:433/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
837
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
848
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
848
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
848
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کے اس عنوان سے دو مقاصد ہیں: ٭ امام سلام پھیرنے کے بعد وہیں نفل وغیرہ پڑھ سکتا ہے اسے جگہ بدلنے کی ضرورت نہیں۔ ٭ امام کا لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھنا ضروری نہیں جیسا کہ عنوان سابق میں تھا۔
حضرت نافع سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اسی جگہ پر نفل وغیرہ پڑھتے جہاں پہلے فرض نماز ادا کی ہوتی۔ حضرت قاسم (ابن محمد بن ابی بکر صدیق) نے بھی ایسے ہی کیا تھا، البتہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرفوعا بیان کیا جاتا ہے کہ امام اسی جگہ نفل نماز نہ پڑھے جہاں اس نے فرض نماز ادا کی تھی، لیکن یہ حدیث صحیح نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام جب نماز سے فراغت کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتا ہے تو وہ حسب ضرورت جو چاہے کر سکتا ہے۔ اس کا مصلے پر ٹھہرے رہنا کسی خاص کیفیت کے ساتھ مقید نہیں، وہ ذکر و دعا میں خود کو مصروف کرے یا دعوت و ارشاد کا فریضہ ادا کرے یا سنن و نوافل ادا کرے، چنانچہ اس عنوان کے تحت امام بخاری ؒ نے امام کا اسی جگہ پر نفل پڑھنے کا جواز ثابت کیا ہے اور بطور دلیل حضرت ابن عمر ؓ کا عمل پیش کیا ہے، نیز بتایا ہے کہ حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر بھی ایسا کرتے تھے۔ اس اثر کو امام ابن ابی شیبہ نے متصل سند کے ساتھ اپنی کتاب "المصنف" میں بیان کیا ہے۔ حضرت عبیداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم اور حضرت سالم کو دیکھا وہ پہلے فرض نماز ادا کرتے پھر اسی جگہ پر نوافل پڑھتے تھے۔ (المصنف لابن أبي شیبة، (باب) من رخص أن یتطوع في مکانه :23/2) (2) امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو بالمعنی بیان کیا ہے۔ ابوداود میں یہ روایت بایں الفاظ مروی ہے: ’’کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ نفل پڑھنے کے لیے اپنی جگہ سے آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہو کر پڑھے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1006) سنن بیہقی میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے: ’’اگر کوئی فرض نماز کے بعد نفل پڑھنا چاہے تو آگے ہو کر انہیں ادا کرے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیھقي:190/2) امام بخاری ؒ نے حدیث ابو ہریرہ کے متعلق فیصلہ کیا ہے کہ وہ صحیح نہیں کیونکہ اس کے متن میں اضطراب اور سند میں کمزوری ہے جس کی تفصیل انہوں نے اپنی تصنیف، تاریخ الکبیر میں بیان کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔ اس طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’امام اس جگہ نفل نماز نہ پڑھے جہاں وہ فرض پڑھا چکا ہے، اسے چاہیے کہ وہاں سے دوسری طرف ہٹ کر نفل پڑھے۔‘‘ لیکن اس کی سند منقطع ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:616 وفتح الباري:433/2) (3) مختلف احادیث کے پیش نظر امام کی مختلف حالتیں ہیں: ٭ جس نماز سے سلام پھیر کر فارغ ہوا ہے اس کے بعد سنن و نوافل بھی ہیں۔ ٭ جس نماز سے سلام پھیر کر فارغ ہوا ہے اس کے بعد نوافل یا سنتیں وغیرہ نہیں ہیں جیسا کہ نماز فجر میں ہے۔ پہلی صورت میں اختلاف ہے کہ پہلے مسنون وظائف کیے جائیں یا نوافل وغیرہ ادا کیے جائیں؟ جمہور کا موقف ہے کہ پہلے وظائف پڑھے جائیں پھر نوافل ادا کیے جائیں، اگر وظائف کے بجائے جگہ بدل لی جائے تو بھی کافی ہے جیسا کہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت معاویہ ؓ کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کی، جماعت کے بعد سنت پڑھنے لگا تو حضرت معاویہ ؓ نے کہا کہ جمعہ کی نماز کے بعد دوسری نماز اس وقت تک نہ پڑھی جائے جب تک گفتگو یا وظائف وغیرہ نہ کر لیے جائیں یا جگہ نہ بدل لی جائے۔ اس حدیث کے پیش نظر نوافل وغیرہ پڑھنے کے لیے صرف جگہ بدل لینا ہی کافی ہے۔ دوسری صورت جس میں نماز کے بعد سنن و نوافل نہیں ہیں تو اس صورت میں امام اور مقتدی کو چاہیے کہ وہ خود کو مسنون وظائف میں مشغول رکھیں۔ اس کے لیے کسی جگہ کو متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی مرضی ہے کہ وہ نماز کے بعد وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے وظائف مکمل کریں یا وہاں سے کسی دوسری جگہ پر انہیں پڑھ لیں۔ اگر وہیں اپنے وظائف پورے کرنے ہیں اور امام انہیں وعظ و نصیحت کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ مقتدیوں کی طرف پوری طرح متوجہ ہو کر یہ فریضہ سر انجام دے۔ (وفتح الباري:433/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ہم سے آدم بن ابی ایاس نے کہا کہ ان سے شعبہ نے بیان کیاان سے ایوب سختیانی نے ان سے نافع نے، فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ( نفل ) اسی جگہ پر پڑھتے تھے اور جس جگہ فرض پڑھتے اور قاسم بن محمد بن ابی بکر نے بھی اسی طرح کیا ہے اور ابو ہریرہ ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ امام اپنی ( فرض پڑھنے کی ) جگہ پر نفل نہ پڑھے اور یہ صحیح نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Umar used to offer prayers (Nawafil) at the place where he had offered the compulsory prayer. Al-Qasim (bin Muhammad bin Abi Bakr) did the same. The narration coming from Abu Hurairah (from the Prophet (ﷺ)) forbidding the Imam from offering prayers (optional prayer) at the same place where he was offered the compulsory prayer is incorrect.