تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ جہاں روایات مختلف ہوں یا کسی مسئلے میں ائمہ کا اختلاف ہو وہاں کوئی حکم لگانے کے بجائے لفظ "هل" سے اختلاف کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، چنانچہ جمعہ کے دن غسل کے متعلق وہ قسم کی روایات ہیں: ایک روایت یہ ہے کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل کرنا ضروری ہے، خواہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے۔ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل جمعہ صرف نماز پڑھنے والے کے لیے ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔ ان دونوں روایات کے عموم میں تعارض ہے۔ امام بخاری ؒ نے لفظ "هل" سے اسی تعارض کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ پھر اختلاف روایات کی بنا پر اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ یہ غسل نماز جمعہ کے لیے ہے یا یوم جمعہ کے لیے۔ پھر ایک تیسری روایت بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن ضرور غسل کرنا چاہیے، گویا الگ الگ تین قسم کے غسل ہیں: ٭ نماز جمعہ کے لیے۔ ٭ یوم جمعہ کے لیے۔ ٭ غسل نظافت جو ہفتے میں ایک دن کرنا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے: حدیث ابی ہریرہ کے الفاظ ہیں کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کرے، یہ حکم مرد وزن، بچوں اور غلاموں الغرض تمام کو شامل ہے لیکن حدیث ابن عمر میں یہ شرط ہے کہ جو آدمی جمعہ کے لیے آئے وہ غسل کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جسے جمعہ کے لیے آنا ضروری نہیں اس پر غسل کرنا ضروری نہیں۔ پھر حدیث ابی سعید میں بالغ افراد کی شرط ہے۔ اس سے غیر بالغ افراد پر غسل کا عدم وجوب ثابت ہوا۔ اس تفصیل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ احادیث کو اس عنوان کے تحت کیوں بیان کیا ہے۔
(2) حدیث ابی ہریرہ میں ہے کہ ہر مسلمان کو ہر سات دن میں ایک دن ضرور غسل کرنا چاہیے۔ اس حدیث میں کسی دن کا تعین نہیں ہے، جبکہ سنن نسائی میں حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ مسلمان کو ہر ہفتے میں جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہیے، نیز ابوبکر بن ابی شیبہ نے حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ مسلمان کو جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہیے۔ امام طحاوی ؒ نے ایک انصاری سے اس قسم کی حدیث بیان کی ہے۔ ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ جن احادیث میں مطلق طور پر غسل کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد جمعے کا دن ہے۔ (فتح الباري:492/2)