تشریح:
(1) امام بخاری ؒ خطبۂ جمعہ کے آداب بیان کر رہے ہیں کہ مسجد میں آ کر دو آدمیوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔ اس کے دو معنی ہیں: ٭ دو آدمیوں کے درمیان بیٹھ جانا۔ ٭ دو آدمیوں کے درمیان فساد ڈال دینا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ایک تیسرے معنی بیان کیے ہیں کہ لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر نہ جائے۔ وہ دو آدمی خواہ بھائی ہوں یا دوست کیونکہ اس طرح ان کے درمیان وحشت اور گھبراہٹ واقع ہو گی۔ یہ انداز اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔
(2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ گردنیں پھلانگنے کی سنگینی کے متعلق متعدد احادیث ہیں لیکن وہ استنادی ضعف سے خالی نہیں۔ اس بارے میں وارد چند قوی روایات درج ذیل ہیں۔ ٭ دوران خطبہ میں ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیٹھ جا تو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1118) ٭ ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنوں کو پھلانگا، اس کے لیے ظہر ہو گی (جمعے کے ثواب سے محروم ہو گا)۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:347) زین بن منیر فرماتے ہیں کہ لوگوں کی گردنیں پھلانگنے میں کئی ایک قباحتیں ہیں، یعنی لوگوں کے سروں اور کندھوں تک اپنے پاؤں اٹھانا یہ انتہائی بدتمیزی کی بات ہے۔ بعض اوقات دوسروں کے کپڑے وغیرہ بھی خراب ہو سکتے ہیں جبکہ اس کے پاؤں پر کوئی چیز لگی ہو۔ (فتح الباري:505/2)
(3) اس حکم سے مندرجہ ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں: ٭ اگر منبر تک پہنچنے کے لیے خطیب کو راستہ نہ ملے تو اس کے لیے یہ عمل غیر مکروہ ہے کیونکہ منبر تک پہنچنا اس کی ضرورت ہے۔ ٭ آگے صف میں جگہ موجود ہو لیکن وہاں تک پہنچنا اس کے بغیر ناممکن ہو، اب اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں کہ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر اگلی صفوں میں موجود خالی جگہ پر کی جائے۔ (المغني لابن قدامة:231/3)
(4) ان امور کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس عمل سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے جو شرعاً حرام ہے، نیز جمعہ میں اجتماع کی شان ہے، تفریق کا عمل بے محل اور خلاف مقصود ہے۔ واللہ أعلم۔