تشریح:
اگر بیٹھ کر جمعے کا خطبہ دینا جائز ہوتا تو دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنے کی کیا حیثیت باقی رہتی ہے؟ نیز آیت قرآنی ﴿وَتَرَكُوكَ قَائِمًا﴾ کے مفہوم کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جمعے کا خطبہ کھڑے ہو کر دیا جائے۔ مندرجہ ذیل حدیث سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر جمعے کا خطبہ ارشاد فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ دوران خطبہ میں شام سے ایک تجارتی قافلہ آ گیا، جب لوگوں کو پتہ چلا تو وہ خطبہ چھوڑ کر اس طرف چلے گئے حتی کہ صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے تو اس وقت یہ آیت ﴿وَتَرَكُوكَ قَائِمًا﴾ نازل ہوئی۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:938) اس کے علاوہ حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جس نے کہا کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے اس نے جھوٹ بولا۔ اللہ کی قسم! میں نے آپ کے ساتھ دو ہزار سے زائد نمازیں پڑھی ہیں۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:1996 (862)) ہاں اگر کوئی عذر ہو تو بیٹھ کر خطبہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کے پیٹ کی چربی اور گوشت زیادہ ہو گیا تو انہوں نے بیٹھ کر خطبہ دیا۔ جمعہ کے علاوہ دیگر مواعظ میں بیٹھ کر خطبہ دینا جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن منبر پر (وعظ کرنے کے لیے) بیٹھے اور ہم بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:921) حافظ ابن حجر ؒ نے مصنف عبدالرزاق سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا گراں ہوتا تو کھڑے کھڑے بیٹھ جاتے۔ حضرت معاویہ ؓ کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ وہ پہلا خطبہ بیٹھ کر دیتے اور دوسرے کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ یہ واقعات بیٹھ کر خطبہ دینے کی دلیل نہیں کیونکہ ایسا کرنا ایک ضرورت کے پیش نظر تھا۔ (فتح الباري:516/2) حضرت کعب بن عجرہ ؓ ایک دفعہ مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ عبدالرحمٰن بن ام حکم بیٹھ کر جمعے کا خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے اس فعل کا انکار کرتے ہوئے ﴿وَتَرَكُوكَ قَائِمًا﴾ آیت تلاوت فرمائی۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث:1398)