باب: جمعہ کے دن کسی مسلمان بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے۔
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: A man should not make his brother get up to sit in his place)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
923.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود ہاں بیٹھ جائے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت نافع سے دریافت کیا کہ یہ حکم امتناعی جمعہ کے لیے خاص ہے؟ انہوں نے کہا: جمعہ اور غیر جمعہ دونوں کے لیے یہی حکم ہے۔
تشریح:
آداب جمعہ میں سے ہے کہ آدمی کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جائے، دھکم پیل نہ کرے۔ حدیث میں جمعہ کے دن کی شرط نہیں ہے، البتہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی شخص جمعہ کے دن اپنے بھائی کو وہاں سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے، البتہ گنجائش پیدا کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، السلام، حدیث:5688 (2178)) اگر کسی کو اس کی جگہ سے اٹھانے کا کام تکبر اور غرور کی وجہ سے کیا ہے تو انتہائی معیوب ہے اور اگر ذاتی ترجیح و فضیلت یا اپنی قدرومنزلت کام میں لاتے ہوئے ایسے کیا ہے تو بھی انتہائی شناعت و قباحت کا حامل ہے۔ (فتح الباري:505/2) واضح رہے کہ زبان سے کہہ کر بھی نہ اٹھائے اور اپنی ظاہری وجاہت کی وجہ سے بھی اٹھنے کا اشارہ نہ کرے۔ دونوں صورتیں منع ہیں۔ چونکہ مساجد اللہ کا گھر ہیں، ان میں سب لوگ برابر کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے جو شخص پہلے جس جگہ بیٹھ گیا وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، ہاں اگر کوئی اہل علم کے لیے ایثار کرتے ہوئے وہاں سے خود اٹھ جائے اور کسی اہل علم کو خود اپنی جگہ پر بٹھا دے تو ایسا کرنا شرعاً ممنوع نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
898
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
911
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
911
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
911
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود ہاں بیٹھ جائے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت نافع سے دریافت کیا کہ یہ حکم امتناعی جمعہ کے لیے خاص ہے؟ انہوں نے کہا: جمعہ اور غیر جمعہ دونوں کے لیے یہی حکم ہے۔
حدیث حاشیہ:
آداب جمعہ میں سے ہے کہ آدمی کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جائے، دھکم پیل نہ کرے۔ حدیث میں جمعہ کے دن کی شرط نہیں ہے، البتہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی شخص جمعہ کے دن اپنے بھائی کو وہاں سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے، البتہ گنجائش پیدا کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، السلام، حدیث:5688 (2178)) اگر کسی کو اس کی جگہ سے اٹھانے کا کام تکبر اور غرور کی وجہ سے کیا ہے تو انتہائی معیوب ہے اور اگر ذاتی ترجیح و فضیلت یا اپنی قدرومنزلت کام میں لاتے ہوئے ایسے کیا ہے تو بھی انتہائی شناعت و قباحت کا حامل ہے۔ (فتح الباري:505/2) واضح رہے کہ زبان سے کہہ کر بھی نہ اٹھائے اور اپنی ظاہری وجاہت کی وجہ سے بھی اٹھنے کا اشارہ نہ کرے۔ دونوں صورتیں منع ہیں۔ چونکہ مساجد اللہ کا گھر ہیں، ان میں سب لوگ برابر کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے جو شخص پہلے جس جگہ بیٹھ گیا وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، ہاں اگر کوئی اہل علم کے لیے ایثار کرتے ہوئے وہاں سے خود اٹھ جائے اور کسی اہل علم کو خود اپنی جگہ پر بٹھا دے تو ایسا کرنا شرعاً ممنوع نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام بیکندی ؓ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ میں نے نافع سے سنا، انہوں نے کہا میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔ میں نے نافع سے پوچھا کہ کیا یہ جمعہ کے لیے ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جمعہ اور غیر جمعہ سب کے لیے یہی حکم ہے۔
حدیث حاشیہ:
تعجب ہے ان لوگوں پر جو اللہ کی مساجد حتیٰ کہ کعبہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ثواب کے لیے دوڑتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچا کر ان کی جگہ پر قبضہ کر تے ہیںبلکہ بعض دفعہ جھگڑا فساد تک نوبت پہنچاکر پھر وہاں نماز پڑھتے اور اپنے نفس کو خوش کرتے ہیں کہ وہ عبادت الٰہی کر رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے عبادت کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا بلکہ بعض نمازی تو ایسے ہیں کہ ان کو حقیقی عبادت کا پتہ نہیں ہے اللھم ارحم علی أمة حبیبك صلی اللہ علیه وسلم۔ یہاں مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مسجد خدا کی ہے کسی کے باوا دادا کی ملک نہیں جو نمازی پہلے آیا اور کسی جگہ بیٹھ گیا وہی اس جگہ کا حقدار ہے، اب بادشاہ یا وزیربھی آئے تو اس کو اٹھانے کا حق نہیں رکھتا۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Juraij (RA): I heard Nazi' saying, " Ibn Umar (RA) , said, 'The Prophet (ﷺ) forbade that a man should make another man to get up to sit in his place' ". I said to Nafi', 'Is it for Jumua prayer only?' He replied, "For Jumua prayer and any other (prayer)."