تشریح:
(1) اس گھڑی کی تعیین کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ نے 42 اقوال ذکر کیے ہیں۔ ان میں دو قول زیادہ مشہور ہیں: ٭ وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر اختتام صلاۃِ جمعہ تک ہے۔ اس قول کو امام مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے بیان کیا ہے۔ ٭ عصر کے بعد سے لے کر غروب شمس تک ہے۔ اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ہوتی جبکہ اس گھڑی کے متعلق ہے کہ انسان اس وقت حالت نماز میں ہوتا ہے۔ یہی اشکال ایک صحابی نے دوسرے صحابی کے سامنے رکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ جو نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔
(2) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ محب طبری کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کے متعلق زیادہ صحیح حدیث، حدیث ابی موسیٰ ہے اور سب سے زیادہ مشہور قول عبداللہ بن سلام ؓ کا ہے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی اقوال ہیں وہ ان دونوں یا کسی ایک کے مطابق ہیں یا وہ ضعیف الاسناد یا موقوف روایات ہیں۔ امام بیہقی ؒ نے امام مسلم سے نقل کیا ہے کہ حدیث ابی موسیٰ اس بات میں سب سے زیادہ عمدہ اور صحیح ہے اور یہی بات خود امام بیہقی، ابن العربی اور جماعت محدثین نے کہی ہے۔ امام قرطبی ؒ نے کہا ہے کہ حدیث، اختلاف کے وقت بمنزلہ نص کے فیصلہ کن ہے، لہذا دوسرے احتمالات کی طرف التفات نہ کیا جائے، جبکہ بعض دوسرے حضرات نے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ امام ترمذی نے امام احمد ؒ سے نقل کیا ہے کہ اکثر احادیث سے عبداللہ بن سلام ؓ کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ علامہ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن سلام کا قول أثبت شئي في هذا الباب ہے۔ (فتح الباري:542/2)
(3) حافظ ابن حجرؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے میں لیلۃ القدر کے مخفی رکھنے کی طرح یہ فائدہ ہے کہ اس کی تلاش کے لیے بکثرت نوافل ادا کیے جائیں اور دعائیں مانگی جائیں۔ اس صورت میں ضرور وہ گھڑی مل جائے گی جس کا وہ متلاشی ہے۔ اگر انہیں ظاہر کر دیا جاتا تو لوگ بھروسا کر کے بیٹھ جاتے اور صرف اس گھڑی میں عبادت کرتے، اس لیے اس شخص پر بڑا تعجب ہے جو اسے کسی محدود مدت میں حاصل کرنے پر بھروسا کیے ہوئے ہے۔ (فتح الباري:542/2)
(4) واضح رہے کہ ساعت موجودہ اس شخص کے لیے ہے جو نماز کا پابند ہو نہ کہ وہ شخص جو ساعۃ اجابت کی وجہ سے صرف جمعہ پڑھنے کے لیے آ جائے اور باقی نمازوں کو پابندی سے ادا نہ کرے۔