تشریح:
(1) ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں غلے کی سخت کمی تھی کہ ایک تجارتی قافلہ غلہ لے کر شام سے مدینے آیا۔ اس کی خبر سن کر کچھ لوگ عین خطبے کی حالت میں باہر چلے گئے، اس پر مذکورہ آیتِ جمعہ نازل ہوئی۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے یہ ثابت کیا ہے کہ کچھ فقہاء جمعہ کی صحت کے لیے مخصوص تعداد کی شرط لگاتے ہیں وہ صحیح نہیں۔ بس اتنی تعداد ضروری ہے جسے جماعت کہا جا سکے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اکثر لوگ چلے گئے لیکن آپ نے پھر بھی نماز جمعہ ادا فرمائی۔
(2) واضح رہے کہ لوگ بحالت خطبہ آپ کو چھوڑ کر گئے تھے کیونکہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس آیت کریمہ سے کھڑے ہو کر خطبہ دینے کو ثابت کیا ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود اور حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے مروی ہے۔ روایات میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ یہاں پر ایک اعتراض ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کی شان قرآن کریم نے بایں الفاظ بیان کی ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں تجارت وغیرہ اللہ کے ذکر اور نماز کے قیام سے غافل نہیں کرتی۔ (النور37:24) اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ آیت کے نزول سے پہلے کا ہے۔ اس کے بعد یہ حضرات اس سے رک گئے، پھر صحیح معنوں میں آیت کا مصداق بن گئے۔ (فتح الباري:547/2)
(3) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے تھے، جن میں ابوبکرؓ اورعمر بھی تھے، نیز ان میں حضرت جابر، حضرت سالم مولی ابن حذیفہ، حضرت بلال، حضرت عبداللہ بن مسعود اور کچھ انصاری لوگ بھی تھے ۔۔۔ رضی اللہ عنہم ۔۔۔ بعض روایات میں عشرۂ مبشرہ کے نام ملتے ہیں۔ (فتح الباري:546/2) واللہ أعلم۔