تشریح:
(1) نماز عید کے لیے پیدل چل کر جانے کے متعلق حضرت علی ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے، آپ نے فرمایا کہ عیدگاہ کی جانب پیدل چل کر جانا سنت ہے۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث:530) امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے پیش نظر لکھا ہے کہ اہل علم کی اکثریت عید کے لیے پیدل جانے کو پسند کرتی ہے، نیز ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی عذر کے بغیر سوار نہ ہو۔ لیکن امام بخاریؒ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عید کے لیے پیدل یا سوار ہو کر جانا دونوں طرح جائز ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ شاید امام بخاری ؒ نے اس عنوان کو قائم کر کے نماز عید کے لیے پیدل جانے کے استحباب میں وارد روایات کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري:582/2) پیدل جانے کے استحباب کے لیے جو حدیث ترمذی کے حوالے سے پیش کی گئی ہے اس میں ایک راوی حارث اعور ہے جسے امام نووی نے بالاتفاق کذاب کہا ہے، اس بنا پر یہ حدیث قابل حجت نہیں ہے۔ (نیل الأوطار:3/325،324) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان میں پیدل یا سوار ہو کر جانے کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ اس اطلاق کا تقاضا ہے کہ اس کے متعلق دونوں پہلو مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری ؒ کا ایک اور احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب عورتوں کو وعظ فرمایا تو انہوں نے حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیا ہوا تھا، حالانکہ آپ نے پہلے کسی سہارے کے بغیر خطبہ دیا تھا، جب آپ کو تھکاوٹ محسوس ہوئی تو حضرت بلال ؓ کا سہارا لے لیا، اسی طرح بہتر ہے کہ عیدگاہ پیدل جائے، ہاں! ضرورت کے پیش نظر سواری کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:582/2)
(2) عید کی نماز پہلے پڑھی جائے یا خطبہ دیا جائے؟ اس کے متعلق ہم آئندہ بیان کریں گے، البتہ نماز عید کے لیے اذان یا اقامت نہیں کہنی چاہیے جیسا کہ ابن عباس ؓ اور حضرت جابر ؓ سے مروی احادیث ترک اذان کے متعلق واضح ہیں، البتہ بعض دیگر روایات میں اقامت نہ کہنے کی بھی صراحت ہے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک یا دو مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ نماز عید اذان اور اقامت کے بغیر پڑھی ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة العیدین، حدیث:2051(887)) اگرچہ بعض فقہاء نے نماز عید کے لیے (الصلاة جامعة) کے الفاظ کہنے کی اجازت دی ہے لیکن ایسے الفاظ کہنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ سے مروی بعض طرق میں ہے کہ نماز عید سے پہلے اذان، اقامت یا دوسرے کلمات سے اعلان کرنا صحیح نہیں۔ (فتح الباري:583/2) لہذا نماز عید کے لیے کسی قسم کے الفاظ سے اعلان کرنا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔