Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: As-Salat using a small spear as a Sutra)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
984.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے سامنے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر نیزہ گاڑ دیا جاتا تھا، پھر آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔
تشریح:
(1) پہلے ایک باب میں امام بخاری ؒ نے ثابت کیا تھا کہ عید کے دن ہتھیار اٹھانا منع ہے جبکہ اس حدیث سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کوئی تعمیر شدہ عیدگاہ نہیں تھی بلکہ آپ کھلے میدان میں نماز ادا کرتے تھے، اس لیے نیزہ وغیرہ اپنے ساتھ لے جانے کا حکم دیتے تاکہ اس سے سترے کا کام لیا جائے۔ ایسے حالات میں کوئی چیز ساتھ لے جانے کی ممانعت نہیں۔ اگر اس کی ضرورت نہ ہو تو محض نمائش کے لیے آلات حرب ساتھ لے جانا جائز نہیں تاکہ اجتماع اور بھیڑ کی وجہ سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ (2) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ امام کا سترہ مقتدی حضرات کا بھی سترہ ہے، انہیں مستقل طور پر اپنا سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
958
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
972
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
972
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
972
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے سامنے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر نیزہ گاڑ دیا جاتا تھا، پھر آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) پہلے ایک باب میں امام بخاری ؒ نے ثابت کیا تھا کہ عید کے دن ہتھیار اٹھانا منع ہے جبکہ اس حدیث سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کوئی تعمیر شدہ عیدگاہ نہیں تھی بلکہ آپ کھلے میدان میں نماز ادا کرتے تھے، اس لیے نیزہ وغیرہ اپنے ساتھ لے جانے کا حکم دیتے تاکہ اس سے سترے کا کام لیا جائے۔ ایسے حالات میں کوئی چیز ساتھ لے جانے کی ممانعت نہیں۔ اگر اس کی ضرورت نہ ہو تو محض نمائش کے لیے آلات حرب ساتھ لے جانا جائز نہیں تاکہ اجتماع اور بھیڑ کی وجہ سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ (2) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ امام کا سترہ مقتدی حضرات کا بھی سترہ ہے، انہیں مستقل طور پر اپنا سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدا لوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کے لیے برچھی آگے آگے اٹھائی جاتی اور وہ عید گاہ میں آپ کے سامنے گاڑدی جاتی آپ اسی کی آڑ میں نماز پڑھتے۔
حدیث حاشیہ:
کیونکہ عید میدان میں پڑھی جاتی تھی اور میدان میں نماز پڑھنے کے لیے سترہ ضروری ہے، اس لیے چھوٹا سا نیزہ لے لیتے تھے جو سترہ کے لیے کافی ہو سکے اور اسے آنحضور ﷺ کے سامنے گاڑ دیتے تھے۔ نیزہ اس لیے لیتے تھے کہ اسے گاڑ نے میں آسانی ہوتی تھی۔ امام بخاری ؒ اس سے پہلے لکھ آئے ہیں کہ عید گاہ میں ہتھیار نہ لے جانا چاہیے۔ یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ضرورت ہو تو لے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ خود آنحضور ﷺ کے سترہ کے لیے نیزہ لے جایا جاتا تھا ( تفہیم البخاری )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): On the day of 'Id-ul-Fitr and 'Id-ul-Adha a spear used to be planted in front of the Prophet (ﷺ) I (as a Sutra for the prayer) and then he would pray.