تشریح:
(1) خطبۂ جمعہ کا سننا واجب ہے۔ اس دوران میں گفتگو کرنا منع ہے۔ خطبۂ عید کے متعلق اتنی سختی نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق حدیث میں ہے کہ جو چاہے سننے کے لیے بیٹھا رہے۔ اور جس کا جی چاہے وہ چلا جائے۔ اس کے علاوہ دیگر مواعظ میں رخصت ہے کہ کوئی اٹھ جائے یا بیٹھ کر سنتا رہے۔
(2) یہ پابندی صرف مقتدی حضرات کے لیے ہے کیونکہ امام دوران خطبہ میں بات بھی کر سکتا ہے اور کسی کے سوال کا جواب بھی دے سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطبۂ عیدین میں کچھ وسعت سمجھتے ہیں۔ مذکورہ عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی کو ثابت کیا گیا ہے۔ گویا اس میں حسب ذیل دو احکام ہیں: ٭ خطبۂ عید کے دوران خطیب اور سامع کسی مسئلے پر گفتگو کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ٭ کیا خطیب سے دوران خطبہ میں کوئی سوال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بعض شارحین نے اس عنوان کو تکرار قرار دیا ہے، حالانکہ پہلا حکم دوسرے حکم سے عام حیثیت رکھتا ہے۔ مصنف نے جواب اس لیے نہیں دیا کہ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے کیونکہ دوران خطبہ میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بردہ بن نیار ؓ کا باہمی گفتگو کرنا پہلا حکم ثابت کرتا ہے جبکہ بکری کے یک سالہ بچے کے متعلق حضرت ابو بردہ ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنا دوسرے حکم کی دلیل ہے، نیز واضح رہے کہ آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے متعلق جو ہدایات دی ہیں وہ خطبے کا حصہ ہیں، خطبے کی تکمیل کے بعد آپ نے قربانی کو ذبح فرمایا۔ (فتح الباري:608/2)