باب:اس بارے میں کہ امام کا عورتوں کو بھی نصیحت کرنا اور تعلیم دینا(ضروری ہے)
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The preaching (and teaching) of the (religious) knowledge to women by the Imam (Chief))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
99.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ (عید کے دن مردوں کی صف سے عورتوں کی جانب) نکلے اور آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ تھے، آپ کو خیال ہوا کہ شاید عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی، اس لیے آپ نے انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ و خیرات دینے کا حکم دیا، تو کوئی عورت اپنی بالی اور کوئی اپنی انگوٹھی ڈالنے لگی اور حضرت بلال ؓ (ان زیورات کو) اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے۔ اس حدیث کو اسماعیل (ابن علیہ) نے ایوب سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نبی ﷺ پر گواہی دیتا ہوں۔
تشریح:
1۔ مرد گھر کا نگران ہونے کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا ذمے دار ہے لیکن اس کے باوجود تعلیم نسواں کے متعلق امام کی ذمے داری ختم نہیں ہو جاتی کیونکہ اول تو ہر شخص اصول تعلیم سے واقف نہیں ہو تا۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے کن کن باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے امام کو چاہیے کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے علیحدہ درسگاہ کا اہتمام کرے۔ ان کی ضرورت کے پیش نظر نصاب تعلیم مرتب کرے پھر اس نصاب کو پڑھانے کے لیے قابل اساتذہ کا اہتمام کرے۔ عورتوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ چادر و چار دیواری کے تحفظ کا پورا اہتمام ہو اور مردوں کا داخلہ ممنوع ہو۔ نیز تعلیم مخلوط نہ ہو کیونکہ مخلوط تعلیم میں فتنہ و فساد کے اتنے دروازے کھلتے ہیں کہ تعلیم کا مفاد اس کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وعظ فرمایا: جس کی تفصیل دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تمھاری اکثریت باہمی لعن طعن اور کفران عشیر کی وجہ سے جہنم میں دیکھی ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کثرت سے کیا کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 29) 4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات کے لیے شوق دلانا اور سفارش کرنا بڑے ثواب کا کام ہے نیز عورتوں کے لیے انگوٹھی، چھلا، ہار، گلو بند اور بالیاں وغیرہ پہننے کا جواز ہے۔ 5۔ آج کل چونکہ لاؤڈ سپیکر لگے ہوئے ہیں۔ امام کے وعظ و نصیحت کو مرد عورتیں برابر سنتے ہیں اس لیے مستقل طور پر عورتوں کے پاس آنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ 6۔ اس حدیث سے عورتوں کا عید گاہ جانا بھی ثابت ہوا لیکن پردے اور سادگی کے احکام کے ساتھ جانا چاہیے نمودو نمائش سے ثواب ضائع اور گناہ لازم ہو جاتا ہے۔ جو حضرات اس سنت (عورتوں کے عیدگاہ جانے) کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
98
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
98
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
98
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
98
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ (عید کے دن مردوں کی صف سے عورتوں کی جانب) نکلے اور آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ تھے، آپ کو خیال ہوا کہ شاید عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی، اس لیے آپ نے انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ و خیرات دینے کا حکم دیا، تو کوئی عورت اپنی بالی اور کوئی اپنی انگوٹھی ڈالنے لگی اور حضرت بلال ؓ (ان زیورات کو) اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے۔ اس حدیث کو اسماعیل (ابن علیہ) نے ایوب سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نبی ﷺ پر گواہی دیتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مرد گھر کا نگران ہونے کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا ذمے دار ہے لیکن اس کے باوجود تعلیم نسواں کے متعلق امام کی ذمے داری ختم نہیں ہو جاتی کیونکہ اول تو ہر شخص اصول تعلیم سے واقف نہیں ہو تا۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے کن کن باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے امام کو چاہیے کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے علیحدہ درسگاہ کا اہتمام کرے۔ ان کی ضرورت کے پیش نظر نصاب تعلیم مرتب کرے پھر اس نصاب کو پڑھانے کے لیے قابل اساتذہ کا اہتمام کرے۔ عورتوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ چادر و چار دیواری کے تحفظ کا پورا اہتمام ہو اور مردوں کا داخلہ ممنوع ہو۔ نیز تعلیم مخلوط نہ ہو کیونکہ مخلوط تعلیم میں فتنہ و فساد کے اتنے دروازے کھلتے ہیں کہ تعلیم کا مفاد اس کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وعظ فرمایا: جس کی تفصیل دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تمھاری اکثریت باہمی لعن طعن اور کفران عشیر کی وجہ سے جہنم میں دیکھی ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کثرت سے کیا کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 29) 4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات کے لیے شوق دلانا اور سفارش کرنا بڑے ثواب کا کام ہے نیز عورتوں کے لیے انگوٹھی، چھلا، ہار، گلو بند اور بالیاں وغیرہ پہننے کا جواز ہے۔ 5۔ آج کل چونکہ لاؤڈ سپیکر لگے ہوئے ہیں۔ امام کے وعظ و نصیحت کو مرد عورتیں برابر سنتے ہیں اس لیے مستقل طور پر عورتوں کے پاس آنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ 6۔ اس حدیث سے عورتوں کا عید گاہ جانا بھی ثابت ہوا لیکن پردے اور سادگی کے احکام کے ساتھ جانا چاہیے نمودو نمائش سے ثواب ضائع اور گناہ لازم ہو جاتا ہے۔ جو حضرات اس سنت (عورتوں کے عیدگاہ جانے) کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ایوب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے عطاء بن ابی رباح سے سنا، انھوں نے ابن عباس ؓ سے سنا کہ میں رسول اللہ ﷺ پر گواہی دیتا ہوں، یا عطاء نے کہا کہ میں ابن عباس پر گواہی دیتا ہوں کہ نبی ﷺ (ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے) نکلے اور آپ ﷺ کے ساتھ بلال ؓ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو (خطبہ اچھی طرح) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ ﷺ نے انھیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا (یہ وعظ سن کر) کوئی عورت بالی (اور کوئی عورت) انگوٹھی ڈالنے لگی اور بلال ؓ اپنے کپڑے کے دامن میں (یہ چیزیں) لینے لگے۔ اس حدیث کو اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے روایت کیا، انھوں نے عطاء سے کہ ابن عباس ؓ نے یوں کہا کہ میں آنحضرت ﷺ پر گواہی دیتا ہوں (اس میں شک نہیں ہے) امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ اگلا باب عام لوگوں سے متعلق تھا اور یہ حاکم اور امام سے متعلق ہے کہ وہ بھی عورتوں کو وعظ سنائے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مسئلہ باب کے ساتھ عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ جو لوگ اس کے مخالف ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ ایسی چیز کا انکار کررہے ہیں جوآنحضرت کے زمانہ میں مروج تھی۔ یہ امر ٹھیک ہے کہ عورتیں پردہ اور ادب وشرم وحیا کے ساتھ جائیں۔ کیونکہ بے پردگی بہرحال بری ہے۔ مگرسنت نبوی کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) came out while Bilal (RA) was accompanying him. He went towards the women thinking that they had not heard him (i.e. his sermon). So he preached them and ordered them to pay alms. (Hearing that) the women started giving alms; some donated their ear-rings, some gave their rings and Bilal (RA) was collecting them in the corner of his garment.