صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
23. باب : ( حضرت یوسف ؑ کا بیان ) اللہ پاک نے فرمایا کہ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں
باب : ( حضرت یوسف ؑ کا بیان ) اللہ پاک نے فرمایا کہ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "Verily, in Yusuf and his brethren there were Ayat...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3407.
حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے تو فرمایا: ’’ابو بکر ؓ کو(میری طرف سے)حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ حضرت ابوبکر ؓ اس طرح کے آدمی ہیں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی حکم دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے بھی وہی عذر دہرایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انھیں حکم دو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ تم تو حضرت یوسف ؑ (پر فریفتہ ہونے )والی عورتوں کی طرح (بےجا اصرار کرنے والی )ہو۔‘‘ بہر حال حضرت ابو بکر ؓ نے نبی ﷺ کی زندگی میں لوگوں کی امامت کرائی۔ حسین نے زائد سےرجل كذاکی جگہ رجل رقيق’’نرم دل آدمی‘‘ ذکرکیا ہے۔
تشریح:
1۔ حضرت یوسف ؑ پر فریضۃ ہونے والی عورتوں سے مراد وہ بیگمات مصر ہیں جنھیں عزیز مصر کی بیوی نے بڑے اہتمام سے اپنے گھر جمع کیا تھا۔ جنھوں نے بظاہر اس کو حضرت یوسف ؑ سے محبت کرنے پر ملامت کی تھی مگر وہ خود بھی دل کی گہرائی سے حسن یوسف سے متاثر تھیں بیگمات مصر حضرت یوسف ؑ کا حسن و جمال دیکھ کر اس قدر محونظارہ اور بےخود ہو گئیں کہ ان کی چھریاں پھلوں پر چلنے کی بجائے ان کے اپنے ہاتھوں پر چل گئیں۔ ان میں سے ہر ایک حضرت یوسف ؑ کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن یوسف ؑ نے تمام دلکشیوں اور رعنائیوں کے باوجود ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارانہ کیا۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بے ساختہ پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی معزز فرشتہ ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ناممکن تھا کہ ایک نوجوان انسان جنسی خواہشات سے اس قدر بالا تر ہو کہ دل پھینک قسم کے ماحول میں وہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔اس واقعے سے اس دور کی اخلاقی حالت پر بھی خاصی روشنی پڑتی ہے کہ بے حیائی کس قدر عام تھی اور فحاشی پھیلانے میں عورتوں کو کس قدر آزادی اور بے باکی حاصل تھی اور ان کے مقابلے میں مرد کتنے کمزور یا کس قدر دیوث تھے؟ بہر حال اللہ تعالیٰ نے سیدنایوسف ؑ کو ایسا عزم واستقلال بخشا کہ مصر کی عورتوں کا ان پر جادو نہ چل سکا۔ 2۔ صواحب یوسف کہنے سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ حضرت ابو بکر ؓکے متعلق تمھاری یہ رائے ظاہری رکھ رکھاؤ کے طور پر ہے بصورت دیگر تم بھی حضرت ابو بکر ؓ کی امامت کو تسلیم کر چکی ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3257
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3385
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3385
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3385
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اہل مکہ نے یہود مدینہ سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتاؤ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لاجواب کردے اور ان کی نبوت کا بھرم کھل جائے۔ انھوں نے سوچ کر ایک تاریخی قسم کا سوال اہل مکہ کو بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا پھر حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل)کی اولاد مصر کیسے جا پہنچی جنھیں اہل مصر (فرعون) کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے تھے؟کفار مکہ کے سوال کے جواب میں سورہ یوسف پوری کی پوری نازل ہوگئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے نہ تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگاہ تھے اورنہ اہل مکہ کو اس کا علم ہی تھا۔اس سورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آگئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی آگئے۔جو کفار مکہ اور بردران یوسف کے درمیان مشترک طور پر پائے جاتے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ پہلا نشان تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت تھی کہ آپ نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کرثابت کردیا کہ آپ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ لوگ مسلمان نہ ہوئے بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ واضح رہے کہ عنوان میں سوال کرنے والوں سے مراد اہل مکہ ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے تو فرمایا: ’’ابو بکر ؓ کو(میری طرف سے)حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ حضرت ابوبکر ؓ اس طرح کے آدمی ہیں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی حکم دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے بھی وہی عذر دہرایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انھیں حکم دو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ تم تو حضرت یوسف ؑ (پر فریفتہ ہونے )والی عورتوں کی طرح (بےجا اصرار کرنے والی )ہو۔‘‘ بہر حال حضرت ابو بکر ؓ نے نبی ﷺ کی زندگی میں لوگوں کی امامت کرائی۔ حسین نے زائد سےرجل كذاکی جگہ رجل رقيق’’نرم دل آدمی‘‘ ذکرکیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت یوسف ؑ پر فریضۃ ہونے والی عورتوں سے مراد وہ بیگمات مصر ہیں جنھیں عزیز مصر کی بیوی نے بڑے اہتمام سے اپنے گھر جمع کیا تھا۔ جنھوں نے بظاہر اس کو حضرت یوسف ؑ سے محبت کرنے پر ملامت کی تھی مگر وہ خود بھی دل کی گہرائی سے حسن یوسف سے متاثر تھیں بیگمات مصر حضرت یوسف ؑ کا حسن و جمال دیکھ کر اس قدر محونظارہ اور بےخود ہو گئیں کہ ان کی چھریاں پھلوں پر چلنے کی بجائے ان کے اپنے ہاتھوں پر چل گئیں۔ ان میں سے ہر ایک حضرت یوسف ؑ کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن یوسف ؑ نے تمام دلکشیوں اور رعنائیوں کے باوجود ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارانہ کیا۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بے ساختہ پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی معزز فرشتہ ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ناممکن تھا کہ ایک نوجوان انسان جنسی خواہشات سے اس قدر بالا تر ہو کہ دل پھینک قسم کے ماحول میں وہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔اس واقعے سے اس دور کی اخلاقی حالت پر بھی خاصی روشنی پڑتی ہے کہ بے حیائی کس قدر عام تھی اور فحاشی پھیلانے میں عورتوں کو کس قدر آزادی اور بے باکی حاصل تھی اور ان کے مقابلے میں مرد کتنے کمزور یا کس قدر دیوث تھے؟ بہر حال اللہ تعالیٰ نے سیدنایوسف ؑ کو ایسا عزم واستقلال بخشا کہ مصر کی عورتوں کا ان پر جادو نہ چل سکا۔ 2۔ صواحب یوسف کہنے سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ حضرت ابو بکر ؓکے متعلق تمھاری یہ رائے ظاہری رکھ رکھاؤ کے طور پر ہے بصورت دیگر تم بھی حضرت ابو بکر ؓ کی امامت کو تسلیم کر چکی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ربیع بن یحییٰ بصری نے بیان کیا‘ کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالملک بن عمیر نے‘ ان سے ابو بردہ بن ابی موسیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب بیمار پڑے تو آپ نے فرمایا کہ ابو بکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ ابو بکر ؓ نہایت نرم دل انسان ہیں لیکن حضور ﷺ نے دوبارہ یہی حکم فرمایا اور انہوں نے بھی وہی عذر دہرایا۔ آخر حضور ﷺ نے فرمایا کہ ان سے کہو نماز پڑھائیں۔ تم تو یوسف کی سا تھ والیاں ہو ۔ (ظاہر کچھ باطن کچھ) چنانچہ ابو بکر ؓ نے حضور ﷺ کی زندگی میں امامت کی اورحسین بن علی جعفی نے زائدہ سے ''رجل رقیق'' کے الفاظ نقل کئے کہ ابو بکر نرم دل آدمی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
یوسف ؑ کی ساتھ والیوں سے وہ عورتیں مراد ہیں جن کو زلیخا نے جمع کیا تھا جنہوں نے بظاہر زلیخا کو اس کی محبت پر ملامت کی تھی مگر دل سے سب حضرت یوسف ؑ کے حسن سے متاثر تھیں۔ آنحضرت ﷺ کا مقصد اس جملہ سے یہ تھا کہ حضرت ابو بکر ؓکے بارے میں تمہاری یہ رائے ظاہری طور پر ہے ورنہ دل سے ان کی امامت تسلیم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): When the Prophet (ﷺ) fell ill, he said, "Order Abu Bakr (RA) to lead the people in prayer." 'Aisha (RA) said, " Abu Bakr (RA) is a soft-hearted person. The Prophet (ﷺ) gave the same order again and she again gave the same reply. He again said, "Order Abu Bakr (RA) (to lead the prayer)! You are (like) the female companions of Joseph." Consequently Abu Bakr (RA) led the people in prayer in the life-time of the Prophet