باب: اگر دعوت میں جا کر وہاں کوئی کام خلاف شرع دیکھے تو لوٹ آئے یا کیا کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: Should a person return if he sees something objectionable in the party?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن مسعودؓ نے (ولیمے والے گھر میں) ایک تصویر دیکھی تو وہ واپس آ گئے۔ ابن عمر ؓنے ایک مرتبہ ابوایوب ؓ کی دعوت کی (ابوایوب ؓنے) ان کے گھر میں دیوار پر پردہ پڑا ہوا دیکھا۔ ابن عمر ؓ نے (معذرت کرتے ہوئے) کہا کہ عورتوں نے ہم کو مجبور کر دیا ہے۔ اس پر ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور لوگوں کے متعلق تو مجھے اس کا خطرہ تھا لیکن تمہارے متعلق میرا یہ خیال نہیں تھا (کہ تم بھی ایسا کرو گے) واللہ! میں تمہارے یہاں کھانا نہیں کھاؤں گا چنانچہ وہ واپس آ گئے۔تشریح: حضرت ابوایوب بن زید انصاری خزرجی رسول اللہ ﷺ کے میزبان ہیں خانہ جنگیوں میں یہ حضرت علیؓ کے ساتھ رہے اور 51ھ میں یزید بن معاویہ ؓ کے ما تحت قسطنطنیہ کی جنگ میں شامل ہوئے اور وہیں پر آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور قسطنطنیہ کی دیوار کے پاس ہی آپ کا مرقد ہے۔اللھم بلغ سلامی علیہ(راز)
5221.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا تصویروں والا قالین خریدا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے (گھر میں لٹکتے) دیکھا تو دروازے ہی پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہ گئے مجھے آپ کے چہرہ انور پر کراہت کے آثار محسوس ہوئے تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کے حضور توبہ کرتی ہوں! میں نے کون سا گناہ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ قالین کیساہے؟“ میں نے عرض کی: یہ تو میں نے آپ کے لیے خریدا ہے تا کہ کبھی آپ اس کو بچھا کر بیٹھیں اور کبھی اسکا تکیہ بنالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا ہے اس میں روح ڈالو اور اسے زندہ کرو۔“ پھر فرمایا: ”جس گھر میں یہ تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے یقیناً نہیں آتے۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اس لیے داخل نہ ہوئے کہ اس میں تصاویر تھیں اور یہ ان منکرات شرعیہ میں سے ہے جن کے ہوتے ہوئے وہاں جانا منع ہے کیونکہ تصاویر کی موجودگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور فرشتوں کے دخول کے لیے رکاوٹ کا باعث تھی، لہٰذا ایسی دعوت میں بھی شریک نہیں ہونا چاہیے جہاں خلاف شرع کام ہوں۔ (2)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس دعوت میں حرام کام ہوتا ہو اگر اس کے ازالے پر قادر ہو تو شریک ہو کر اسے دور کرے اگر اس کے ازالے پر قدرت نہ ہو تو واپس آ جائے اور کھانا نہ کھائے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے، (المعجم الکبیر للطبراني: 275/1، رقم: 444، طبع مکتبة المعارف) مثلاً: وہاں لوگ شراب پیتے ہوں یا فاحشہ عورتوں کا ناچ گانا ہو تو ایسی دعوت میں شرکت نہ کرنا بہتر ہے۔ (فتح الباري: 310/9) لیکن یہ سب کچھ حاضری کے بعد ہے اور اگر حاضری سے پہلے ہی علم ہو جائے تو دعوت قبول ہی نہ کرے۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4981
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5181
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5181
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5181
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
اکثر روایات میں حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ واقعہ مروی ہے۔ممکن ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کےساتھ بھی اس قسم کا معاملہ پیش آیا ہو۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے حضرت سالم کی شادی کی،اس موقع پر عورتوں نے گھر کی دیواروں پر زینت کے لیے سبز پردے لٹکا دیے۔جب حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ آئے تو انھوں نے فرمایا:تم دیواروں پر فضول پردے لٹکاتے ہو،اس کے بعد آپ واپس چلے گئے۔(فتح الباری: 9/310)
اور ابن مسعودؓ نے (ولیمے والے گھر میں) ایک تصویر دیکھی تو وہ واپس آ گئے۔ ابن عمر ؓنے ایک مرتبہ ابوایوب ؓ کی دعوت کی (ابوایوب ؓنے) ان کے گھر میں دیوار پر پردہ پڑا ہوا دیکھا۔ ابن عمر ؓ نے (معذرت کرتے ہوئے) کہا کہ عورتوں نے ہم کو مجبور کر دیا ہے۔ اس پر ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور لوگوں کے متعلق تو مجھے اس کا خطرہ تھا لیکن تمہارے متعلق میرا یہ خیال نہیں تھا (کہ تم بھی ایسا کرو گے) واللہ! میں تمہارے یہاں کھانا نہیں کھاؤں گا چنانچہ وہ واپس آ گئے۔تشریح: حضرت ابوایوب بن زید انصاری خزرجی رسول اللہ ﷺ کے میزبان ہیں خانہ جنگیوں میں یہ حضرت علیؓ کے ساتھ رہے اور 51ھ میں یزید بن معاویہ ؓ کے ما تحت قسطنطنیہ کی جنگ میں شامل ہوئے اور وہیں پر آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور قسطنطنیہ کی دیوار کے پاس ہی آپ کا مرقد ہے۔اللھم بلغ سلامی علیہ(راز)
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا تصویروں والا قالین خریدا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے (گھر میں لٹکتے) دیکھا تو دروازے ہی پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہ گئے مجھے آپ کے چہرہ انور پر کراہت کے آثار محسوس ہوئے تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کے حضور توبہ کرتی ہوں! میں نے کون سا گناہ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ قالین کیساہے؟“ میں نے عرض کی: یہ تو میں نے آپ کے لیے خریدا ہے تا کہ کبھی آپ اس کو بچھا کر بیٹھیں اور کبھی اسکا تکیہ بنالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا ہے اس میں روح ڈالو اور اسے زندہ کرو۔“ پھر فرمایا: ”جس گھر میں یہ تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے یقیناً نہیں آتے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اس لیے داخل نہ ہوئے کہ اس میں تصاویر تھیں اور یہ ان منکرات شرعیہ میں سے ہے جن کے ہوتے ہوئے وہاں جانا منع ہے کیونکہ تصاویر کی موجودگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور فرشتوں کے دخول کے لیے رکاوٹ کا باعث تھی، لہٰذا ایسی دعوت میں بھی شریک نہیں ہونا چاہیے جہاں خلاف شرع کام ہوں۔ (2)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس دعوت میں حرام کام ہوتا ہو اگر اس کے ازالے پر قادر ہو تو شریک ہو کر اسے دور کرے اگر اس کے ازالے پر قدرت نہ ہو تو واپس آ جائے اور کھانا نہ کھائے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے، (المعجم الکبیر للطبراني: 275/1، رقم: 444، طبع مکتبة المعارف) مثلاً: وہاں لوگ شراب پیتے ہوں یا فاحشہ عورتوں کا ناچ گانا ہو تو ایسی دعوت میں شرکت نہ کرنا بہتر ہے۔ (فتح الباري: 310/9) لیکن یہ سب کچھ حاضری کے بعد ہے اور اگر حاضری سے پہلے ہی علم ہو جائے تو دعوت قبول ہی نہ کرے۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے (ولیمے والے) گھر میں ایک تصویر دیکھی تو واپس آگئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے حضرت ابو ایوب انصاری کی دعوت کی تو انہوں نے ان کے گھر میں دیوار پر پردہ پڑاہوا دیکھا، حضرت ابن عمر ؓنے (معذرت کرتے ہوئے) کہا: عورتوں نے ہمیں مجبور کردیا ہے۔ حضرت ابو ایوب نے فرمایا: دوسرے لوگوں کے متعلق تو مجھے اندیشہ تھا لیکن تمہارے بارے میں مجھے یہ خیال نہ تھا۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے ہاں کھانا نہیں کھاؤں گا پھر وہ واپس چلے گئے
فائدہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت سالم کی شادی کی۔ اس موقع پر عورتوں نے گھر کی دیواروں پر زینت کے لیے سبز پردے لٹکادیے۔ جب حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے فرمایا: کہ تم دیواروں پر فضول پردے لٹکاتے ہو اس کے بعد آپ وآپس ہوگئے
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا گدا خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ جب آنحضرت ﷺ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہیں آئے۔ میں نے آنحضرت ﷺ کے چہرے پر خفگی کے آثار دیکھ لئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں اللہ اور اس کے رسول سے توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا غلطی کی ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ گدا یہاں کیسے آیا؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا میں نے ہی اسے خریدا ہے تا کہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس پر ٹیک لگائیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان تصویروں کے (بنانے والوں کو) قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے تصویرسازی کی ہے اسے زندہ بھی کرو؟ اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جن گھروں میں تصویریں ہوتی ہیں ان میں (رحمت کے) فرشتے نہیں آتے۔
حدیث حاشیہ:
بے جان چیزوں کی تصویریں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ فتح الباری میں ہے کہ جس دعوت میں حرام کام ہوتا ہو تو اگر اس کے دور کرنے پر قادر ہو تو اس کو دور کر دے ورنہ لوٹ کر چلا جائے، کھانا نہ کھائے اور طبرانی نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ مثلاً وہ لوگ شراب پیتے ہوں یا فاحشہ عورتوں کا ناچ رنگ ہو رہا ہو تو اس دعوت میں شرکت نہ کرنا بہتر ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری کا یہ کمال ورع تھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مکان میں دیوار پر کپڑا دیکھ کر اس میں بیٹھنا اور کھانا گوارا نہ کیا۔ قسطلانی نے کہا کہ جمہور شافعیہ اس کی کراہت کے قائل ہیں کیونکہ اگر حرام ہوتا تو دوسرے صحابہ بھی وہاں نہ بیٹھتے نہ کھانا کھاتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے صحابہ کو حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق نہ ہو اگر حضرت ابو ایوب آج کی بدعات کو دیکھتے تو کیا کہتے، جبکہ بیشتر اہل بدعت نے قبروں اور مزاروں پر اس قدر زیب و زینت کر رکھی ہے کہ بت خانوں کو بھی مات کر رکھا ہے ایک مقام پر ایک بزرگ اجالا شاہ نامی کا مزار ہے جہاں صبح اجالا ہوتے ہی روزانہ کمخواب کی ایک نئی چادر چڑھائی جاتی ہے اس پر مٹھائی کی ٹوکری ہوتی ہے اور صندل سے ان کی قبر کو لیپا جاتا ہے۔ صد افسوس کہ ایسی حرکتوں کو عین اسلام سمجھا جاتا ہے اور اصلاح کے لئے کوئی کچھ کہہ دے تو اسے وہابی کہہ کر معیوب قرار دیا جاتا ہے اور اس سے سخت دشمنی کی جاتی ہے۔ اللہ پاک ایسے نام نہاد مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کر ے، آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) I bought a cushion having on it pictures (of animals). When Allah's Apostle (ﷺ) saw it, he stood at the door and did not enter. I noticed the sign of disapproval on his face and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I repent to Allah and His Apostle. What sin have I committed?' Allah's Apostle (ﷺ) said. "What is this cushion?" I said, "I have bought it for you so that you may sit on it and recline on it." Allah's Apostle (ﷺ) said, "The makers of these pictures will be punished on the Day of Resurrection, and it will be said to them, 'Give life to what you have created (i.e., these pictures).' " The Prophet (ﷺ) added, "The Angels of (Mercy) do not enter a house in which there are pictures (of animals)."