صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
156. باب: نماز کے بعد ذکر الٰہی کرنا۔
صحيح البخاري
10. كتاب الأذان
156. بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ
Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
156. Chapter: The Dhikr (remembering Allah by Glorifying, Praising and Magnifying Him) after As-Salat (the prayer)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The Dhikr (remembering Allah by Glorifying, Praising and Magnifying Him) after As-Salat (the prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
856.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو خط لکھا کہ نبی ﷺ ہر فرض نماز کے بعد پڑھتے تھے: (لا إله إلا الله وحده ۔۔۔۔ ذالجد منك الجد) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔ اے اللہ! تیری عطا کو کوئی روکنے والا نہیں اور تیری روکی ہوئی چیز کو کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی دولت مند کو اس کی تونگری تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔‘‘ امام شعبہ نے بھی عبدالملک بن عمیر سے یہ حدیث بیان کی ہے۔ حسن بصری ؓ بیان کرتے ہیں کہ جد کے معنی تونگری اور بے نیازی کے ہیں، نیز امام شعبہ نے حکم کے واسطے سے بھی یہ روایت وراد سے بیان کی ہے۔
تشریح:
(1) حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ حضرت معاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے اپنے گورنر کو خط لکھا کہ مجھے وہ وظیفہ لکھ کر ارسال کرو جسے رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد پڑھتے ہوں تو انہوں نے مذکورہ وظیفہ لکھ کر بھیجا تھا۔ طبرانی کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں: (يحيي و يميت وهو حي لا يموت بيده الخير) ’’وہ زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے۔ وہ ایسا زندۂ جاوید ہے کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کے ہاتھ خیروبرکت ہے۔‘‘ (فتح الباري:429/2) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ اگر حدیث میں کوئی مشکل لفظ آ جائے اور اسی طرح کا لفظ قرآن میں بھی آتا ہو تو قرآنی لفظ کا معنی بتانے کے لیے مفسرین کا حوالہ دیتے ہیں، اس مقام پر حسن بصری سے لفظ جد کی وضاحت کی ہے کہ اس کے معنی بے نیازی کے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿وَأَنَّهُ تَعَالَىٰ جَدُّ رَبِّنَا﴾(الجن3:72)’’اور یہ کہ بہت بلند ہے شان ہمارے رب کی‘‘ اکثر روایات میں یہ تفسیری بیان ذکر نہیں ہوا۔ (فتح الباري:430/2) (2) حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’اے معاذ! اللہ کی قسم، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا: میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تو میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ ضرور پڑھا کرو: "رب أعني علی ذكرك و شكرك و حسن عبادتك" ’’اے میرے رب! ذکر کرنے، شکر کرنے اور اچھی عبادت کرنے میں میری مدد کر۔‘‘ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:1304)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
833
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
844
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
844
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
844
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو خط لکھا کہ نبی ﷺ ہر فرض نماز کے بعد پڑھتے تھے: (لا إله إلا الله وحده ۔۔۔۔ ذالجد منك الجد) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔ اے اللہ! تیری عطا کو کوئی روکنے والا نہیں اور تیری روکی ہوئی چیز کو کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی دولت مند کو اس کی تونگری تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔‘‘ امام شعبہ نے بھی عبدالملک بن عمیر سے یہ حدیث بیان کی ہے۔ حسن بصری ؓ بیان کرتے ہیں کہ جد کے معنی تونگری اور بے نیازی کے ہیں، نیز امام شعبہ نے حکم کے واسطے سے بھی یہ روایت وراد سے بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ حضرت معاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے اپنے گورنر کو خط لکھا کہ مجھے وہ وظیفہ لکھ کر ارسال کرو جسے رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد پڑھتے ہوں تو انہوں نے مذکورہ وظیفہ لکھ کر بھیجا تھا۔ طبرانی کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں: (يحيي و يميت وهو حي لا يموت بيده الخير) ’’وہ زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے۔ وہ ایسا زندۂ جاوید ہے کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کے ہاتھ خیروبرکت ہے۔‘‘ (فتح الباري:429/2) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ اگر حدیث میں کوئی مشکل لفظ آ جائے اور اسی طرح کا لفظ قرآن میں بھی آتا ہو تو قرآنی لفظ کا معنی بتانے کے لیے مفسرین کا حوالہ دیتے ہیں، اس مقام پر حسن بصری سے لفظ جد کی وضاحت کی ہے کہ اس کے معنی بے نیازی کے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿وَأَنَّهُ تَعَالَىٰ جَدُّ رَبِّنَا﴾(الجن3:72)’’اور یہ کہ بہت بلند ہے شان ہمارے رب کی‘‘ اکثر روایات میں یہ تفسیری بیان ذکر نہیں ہوا۔ (فتح الباري:430/2) (2) حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’اے معاذ! اللہ کی قسم، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا: میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تو میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ ضرور پڑھا کرو: "رب أعني علی ذكرك و شكرك و حسن عبادتك" ’’اے میرے رب! ذکر کرنے، شکر کرنے اور اچھی عبادت کرنے میں میری مدد کر۔‘‘ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث:1304)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبدالملک بن عمیر سے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے کاتب وراد نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ ؓ نے معاویہ ؓ کو ایک خط میں لکھوایا کہ نبی کریم ﷺ ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ (ترجمہ) اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اس کی ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ جسے تو دے اس سے روکنے والا کوئی نہیں اور جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی مال دار کو اس کی دولت ومال تیری بارگاہ میں کوئی نفع نہ پہنچا سکیںگے۔ شعبہ نے بھی عبد الملک سے اسی طرح روایت کی ہے۔ حسن نے فرمایا کہ (حدیث میں لفظ ) جد کے معنی مال داری کے ہیں اور حکم، قاسم بن مخیمرہ سے وہ وراد کے واسطے سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Warrad (RA): (The clerk of Al-Mughira bin Shu'ba) Once Al-Mughira dictated to me in a letter addressed to Mu'awiya that the Prophet (ﷺ) used to say after every compulsory prayer, "La ilaha ilallah wahdahu la sharika lahu, lahul-mulku wa-lahul-hamdu, wahuwa ala kulli shai in qadir. Allahumma la mani 'a lima a'taita, wa la mu'tiya lima mana'ta, wa la yanfa'u dhal-jaddi minka-l-jadd. (None has the right to be worshipped but Allah and He has no partner in Lordship or in worship or in the Names and the Qualities, and for Him is the Kingdom and all the praises are for Him and He is omnipotent. O Allah! Nobody can hold back what you give and nobody can give what You hold back. Hard (efforts by anyone for anything cannot benefit one against Your Will)." And Al-Hasan said, "Al-jadd' means prosperity."