Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Estimating the date-fruits on the palms for Zakat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1482.
ایک روایت کے مطابق آپﷺ نے فرمایا:’’پھر بنوحارث کے گھرانے پھر بنو ساعدہ کے گھرانے بہتر ہیں۔‘‘ ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اُحد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ امام بخاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہر باغ جس کی دیوار ہو وہ حدیقہ ہے اور جس کی دیوار نہ ہو اس کو حدیقہ نہیں کہا جاتا۔
تشریح:
(1) درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کا کسی تجربہ کار سے اندازہ لگوانا خرص کہلاتا ہے، کھجور یا انگور جب پک جائیں تو حاکم وقت کسی تجربہ کار اندازہ لگانے والے کو بھیجتا ہے کہ وہ باغ کو دیکھ کر اندازہ کرے کہ اس سے کتنا خشک پھل اترے گا، پھر اس اندازے کے مطابق اس پر عشر واجب ہوتا ہے، اندازہ کردہ مقدار سے اخراجات کو منہا کر دیا جاتا ہے۔ (2) جمہور علماء کے نزدیک کھجوروں اور انگوروں کا اندازہ لگانا صحیح ہے اور اس قاعدے کے مطابق عشر وصول کرنا جائز ہے لیکن احناف اسے نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک مالک کے قبضے میں جو مقدار ہو گی وہ اس سے عشر ادا کرے، خواہ وہ اندازے سے کم ہو یا زیادہ، لیکن اسلامی نقطہ نظر کے مطابق زکاۃ وصول کرنے والوں کو درختوں پر موجود انگور اور تر کھجور کے تخمینے کے لیے بھیجنا مشروع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کو اہل خیبر کی کھجوروں کا اندازہ لگانے کے لیے بھیجا تھا۔ (سنن ابن ماجة، الزکاة، حدیث:1820) حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح ابن حبان کے حوالے سے ایک مرفوع حدیث بیان کی ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم درختوں پر پھل کا اندازہ کرو تو اس سے ایک تہائی منہا کرو، اگر ایک تہائی نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم ایک چوتھائی ضرور چھوڑ دو۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1605، وسنن النسائي، الزکاة، حدیث:2491) حضرت عتاب بن اسید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انگور کی زکاۃ اس طرح انداز لگا کر ادا کرنے کا حکم دیا جس طرح کھجوروں کی زکاۃ اندازہ لگا کر ادا کی جاتی ہے، نیز انگور کی زکاۃ منقے سے دی جائے جس طرح تازہ کھجوروں کی زکاۃ خشک کھجوروں سے دی جاتی ہے۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:644) اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ کی مقدار کا تعیین اندازے سے ہو گا لیکن زکاۃ کی ادائیگی خشک پھل سے ہو گی، ان کے علاوہ دیگر غلوں کا اندازہ لگانا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1443.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1482
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1482
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1482
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
ایک روایت کے مطابق آپﷺ نے فرمایا:’’پھر بنوحارث کے گھرانے پھر بنو ساعدہ کے گھرانے بہتر ہیں۔‘‘ ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اُحد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ امام بخاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہر باغ جس کی دیوار ہو وہ حدیقہ ہے اور جس کی دیوار نہ ہو اس کو حدیقہ نہیں کہا جاتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کا کسی تجربہ کار سے اندازہ لگوانا خرص کہلاتا ہے، کھجور یا انگور جب پک جائیں تو حاکم وقت کسی تجربہ کار اندازہ لگانے والے کو بھیجتا ہے کہ وہ باغ کو دیکھ کر اندازہ کرے کہ اس سے کتنا خشک پھل اترے گا، پھر اس اندازے کے مطابق اس پر عشر واجب ہوتا ہے، اندازہ کردہ مقدار سے اخراجات کو منہا کر دیا جاتا ہے۔ (2) جمہور علماء کے نزدیک کھجوروں اور انگوروں کا اندازہ لگانا صحیح ہے اور اس قاعدے کے مطابق عشر وصول کرنا جائز ہے لیکن احناف اسے نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک مالک کے قبضے میں جو مقدار ہو گی وہ اس سے عشر ادا کرے، خواہ وہ اندازے سے کم ہو یا زیادہ، لیکن اسلامی نقطہ نظر کے مطابق زکاۃ وصول کرنے والوں کو درختوں پر موجود انگور اور تر کھجور کے تخمینے کے لیے بھیجنا مشروع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کو اہل خیبر کی کھجوروں کا اندازہ لگانے کے لیے بھیجا تھا۔ (سنن ابن ماجة، الزکاة، حدیث:1820) حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح ابن حبان کے حوالے سے ایک مرفوع حدیث بیان کی ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم درختوں پر پھل کا اندازہ کرو تو اس سے ایک تہائی منہا کرو، اگر ایک تہائی نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم ایک چوتھائی ضرور چھوڑ دو۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1605، وسنن النسائي، الزکاة، حدیث:2491) حضرت عتاب بن اسید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انگور کی زکاۃ اس طرح انداز لگا کر ادا کرنے کا حکم دیا جس طرح کھجوروں کی زکاۃ اندازہ لگا کر ادا کی جاتی ہے، نیز انگور کی زکاۃ منقے سے دی جائے جس طرح تازہ کھجوروں کی زکاۃ خشک کھجوروں سے دی جاتی ہے۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:644) اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ کی مقدار کا تعیین اندازے سے ہو گا لیکن زکاۃ کی ادائیگی خشک پھل سے ہو گی، ان کے علاوہ دیگر غلوں کا اندازہ لگانا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور سلیمان بن بلال نے کہا کہ مجھ سے عمرو نے اس طرح بیان کیا کہ پھر بنی حارث بن خزرج کا خاندان اور پھر بنو ساعدہ کا خاندان۔ اور سلیمان نے سعد بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے عمارہ بن غزنیہ نے ‘ ان سے عباس نے ‘ ان سے ان کے باپ ( سہل ) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث میں جہاں کھجوروں کا اندازہ کرلینے کا ذکر ہے وہاں اور بھی بہت سے حقائق کا بیان ہے۔ غزوئہ تبوک 9 ھ میں ایسے وقت میں پیش آیا کہ موسم گرما اپنے پورے شباب پر تھا اور مدینہ میں کھجور کی فصل بالکل تیار تھی۔ پھر بھی صحابہ کرام نے بڑی جان نثاری کا ثبوت دیا اور ہر پریشانی کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس طویل سفر میں شریک ہوئے۔ سرحد کا معاملہ تھا۔ آپ دشمن کے انتظار میں وہاں کافی ٹھہرے رہے مگر دشمن مقابلہ کے لیے نہ آیا۔ بلکہ قریب ہی ایلہ شہر کے عیسائی حاکم یوحنا بن روبہ نے آپ کو صلح کا پیغام دیا۔ آپ نے اس کی حکومت اس کے لیے برقرار رکھی۔ کیونکہ آپ کا منشاء ملک گیری کا ہرگز نہ تھا۔ واپسی میں آپ کو مدینہ کی محبت نے سفر میں عجلت پر آمادہ کردیا تو آپ نے مدینہ جلد سے جلد پہنچنے کا اعلان فرمادیا۔ جب یہ پاک شہر نظر آنے لگا تو آپ ﷺ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے اس مقدس شہر کو لفظ طابہ سے موسوم فرمایا۔ جس کے معنے پاکیزہ اور عمدہ کے ہیں۔ احد پہاڑ کے حق میں بھی اپنی انتہائی محبت کا اظہار فرمایا پھر آپ ﷺ نے قبائل انصار کی درجہ بدرجہ فضیلت بیان فرمائی جن میں اولین درجہ بنونجار کو دیا گیا۔ ان ہی لوگوں میں آپ کی ننہال تھی اور سب سے پہلے جب آپ مدینہ تشریف لائے یہ لوگ ہتھیار باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ پھر تمام ہی قبائل انصار تعریف کے قابل ہیں جنہوں نے دل وجان سے اسلام کی ایسی مدد کی کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے یاد رہ گئے۔ رضي اللہ عنهم ورضوا عنه۔