Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The recitation of the Qur'an in a Zuhr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
759.
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی پہلی دو رکعات میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت کو لمبا کرتے اور دوسری رکعت کو چھوٹا کرتے تھے، نیز کبھی کبھی کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے۔ نماز عصر میں بھی سورہ فاتحہ اور دیگر دو سورتیں تلاوت فرماتے اور پہلی رکعت کو دوسری رکعت سے کچھ لمبا کرتے۔ اسی طرح صبح کی نماز میں بھی پہلی رکعت کو طویل اور دوسری کو مختصر کرتے تھے۔
تشریح:
(1) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعات میں سے ہر رکعت میں تیس آیات کے برابر قراءت کرتے اور دوسری دورکعات میں پندرہ آیات کے برابر تلاوت فرماتے، نیز عصر کی پہلی دو رکعات میں سے ہر رکعت میں پندرہ آیات کے برابر قراءت کرتے اور دوسری دورکعات میں اس سے نصف کے بقدر قراءت کرتے تھے۔ (مسندأحمد:3/2) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت کو اس قدر لمبا اس لیے کرتے تھے کہ نمازی پہلی رکعت میں شریک ہوسکیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:800) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر اور عصر کی آخری دو رکعات میں سورۂ فاتحہ کے بعد قراءت کرنا بھی مسنون ہے اور کبھی آپ آخری دورکعات میں صرف فاتحہ ہی پڑھتے تھے۔ جیسا کہ حدیث الباب میں وضاحت ہے۔ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ کی قراءت طویل ہوجاتی تھی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ نماز ظہر کے لیے اقامت ہوئی تو ایک شخص اپنے گھر سے بقیع کی طرف قضائے حاجت کےلیے گیا، وہاں سے فارغ ہوکر اپنے گھر آیا، وضو کیا، پھر مسجد میں آیا تو معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ابھی تک پہلی رکعت میں ہیں۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1020 (454))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
750
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
759
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
759
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
759
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کا کیا مقصود ہے؟اس کے متعلق تین احتمال ہیں:٭مطلق طور پر قراءت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سری نمازوں میں بھی قراءت ضروری ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف ہے کہ سری نمازوں میں قراءت ضروری نہیں۔٭اس سے نماز ظہر میں قراءت کی مقدار بیان کرنا مقصود ہے کہ اس میں کس قدر قراءت ہونی چاہیے۔٭ اس سے مقصود ان سورتوں کا بیان ہے جو نماز ظہر میں پڑھی جاتی تھیں۔لیکن پہلا احتمال راجح ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے اور تیسرے احتمال کے متعلق کوئی تعرض نہیں کیا بلکہ آپ نے اپنی دوسری تالیف میں ایک عنوان اس طرح قائم کیا ہے:" نماز ظہر کی تمام چار رکعات میں قراءت کا بیان "(جزءالقراءۃ،باب:7) اس سلسلے میں انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی ایک روایت پیش کی ہے، فرماتے ہیں: (ظہر کی)پہلی دورکعات میں سورۂ فاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھی جائے اور آخری دو رکعات میں فاتحہ پڑھی جائے اور ہم آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ کوئی نماز بھی فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔(جزءالقراءۃ،حدیث:280) ایک روایت میں ہے کہ ہم نماز ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعات میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ اور کوئی ایک سورت اور آخری دو رکعات میں فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔(سنن ابن ماجہ،اقامۃالصلوات والسنۃ فیھا،حدیث:843)
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی پہلی دو رکعات میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت کو لمبا کرتے اور دوسری رکعت کو چھوٹا کرتے تھے، نیز کبھی کبھی کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے۔ نماز عصر میں بھی سورہ فاتحہ اور دیگر دو سورتیں تلاوت فرماتے اور پہلی رکعت کو دوسری رکعت سے کچھ لمبا کرتے۔ اسی طرح صبح کی نماز میں بھی پہلی رکعت کو طویل اور دوسری کو مختصر کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعات میں سے ہر رکعت میں تیس آیات کے برابر قراءت کرتے اور دوسری دورکعات میں پندرہ آیات کے برابر تلاوت فرماتے، نیز عصر کی پہلی دو رکعات میں سے ہر رکعت میں پندرہ آیات کے برابر قراءت کرتے اور دوسری دورکعات میں اس سے نصف کے بقدر قراءت کرتے تھے۔ (مسندأحمد:3/2) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت کو اس قدر لمبا اس لیے کرتے تھے کہ نمازی پہلی رکعت میں شریک ہوسکیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:800) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر اور عصر کی آخری دو رکعات میں سورۂ فاتحہ کے بعد قراءت کرنا بھی مسنون ہے اور کبھی آپ آخری دورکعات میں صرف فاتحہ ہی پڑھتے تھے۔ جیسا کہ حدیث الباب میں وضاحت ہے۔ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ کی قراءت طویل ہوجاتی تھی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ نماز ظہر کے لیے اقامت ہوئی تو ایک شخص اپنے گھر سے بقیع کی طرف قضائے حاجت کےلیے گیا، وہاں سے فارغ ہوکر اپنے گھر آیا، وضو کیا، پھر مسجد میں آیا تو معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ابھی تک پہلی رکعت میں ہیں۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1020 (454))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے باپ ابوقتادہ ؓ سے کہ نبی اکرم ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ہر رکعت میں ایک ایک سورت پڑھتے تھے، ان میں بھی قرآت کرتے تھے لیکن آخری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتے تھے کبھی کبھی ہم کو بھی کوئی آیت سنا دیا کرتے تھے۔ عصر میں آپ ﷺ سورہ فاتحہ اور سورتیں پڑھتے تھے، اس کی بھی پہلی دو رکعتیں لمبی پڑھتے۔ اسی طرح صبح کی نماز کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری ہلکی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abi Qatada (RA): My father said, "The Prophet (ﷺ) in Zuhr prayers used to recite Al-Fatiha along with two other Suras in the first two Rakat: a long one in the first Rak'a and a shorter (Sura) in the second, and at times the verses were audible. In the 'Asr prayer the Prophet (ﷺ) used to recite Al-Fatiha and two more Suras in the first two Rakat and used to prolong the first Rak'a. And he used to prolong the first Rak'a of the Fajr prayer and shorten the second.