باب: (وتر اور ہر نماز میں) قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد پڑھ سکتے ہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: To recite Qunut before and after bowing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1002.
عاصم بن سلیمان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس ؓ سے قنوت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا: بلاشبہ قنوت پڑھی جاتی تھی۔ میں نے پوچھا: رکوع سے پہلے یا بعد؟ انہوں نے کہا: قبل از رکوع پڑھی جاتی تھی۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ فلاں شخص تو آپ سے بیان کرتا ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد فرمایا ہے۔ حضرت انس ؓ بولے: وہ غلط کہتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت پڑھی تھی۔ میرے خیال کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی طرف تقریبا ستر آدمی روانہ کیے جنہیں قراء کہا جاتا تھا۔ (مشرکین نے انہیں قتل کر دیا۔) یہ (قتل کرنے والے) مشرک لوگ ان مشرکین کے علاوہ تھے جن کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان معاہدہ صلح تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے قنوت پڑھنے کا اہتمام کیا اور ایک ماہ تک ان کے خلاف بددعا کرتے رہے۔
تشریح:
ملحوظہ:إلی قوم مشركين دون أولئك وكان بينهم و بين رسول الله صلي الله عليه وسلم عهد۔۔، یہ عبارت مبہم ہے۔ اس کا ترجمہ حدیث کے دیگر طرق کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے تاکہ فہم حدیث میں دقت پیش نہ آئے۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (فتح الباري:489/1و 496)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
988
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1002
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1002
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1002
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
عاصم بن سلیمان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس ؓ سے قنوت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا: بلاشبہ قنوت پڑھی جاتی تھی۔ میں نے پوچھا: رکوع سے پہلے یا بعد؟ انہوں نے کہا: قبل از رکوع پڑھی جاتی تھی۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ فلاں شخص تو آپ سے بیان کرتا ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد فرمایا ہے۔ حضرت انس ؓ بولے: وہ غلط کہتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت پڑھی تھی۔ میرے خیال کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی طرف تقریبا ستر آدمی روانہ کیے جنہیں قراء کہا جاتا تھا۔ (مشرکین نے انہیں قتل کر دیا۔) یہ (قتل کرنے والے) مشرک لوگ ان مشرکین کے علاوہ تھے جن کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان معاہدہ صلح تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے قنوت پڑھنے کا اہتمام کیا اور ایک ماہ تک ان کے خلاف بددعا کرتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
ملحوظہ:إلی قوم مشركين دون أولئك وكان بينهم و بين رسول الله صلي الله عليه وسلم عهد۔۔، یہ عبارت مبہم ہے۔ اس کا ترجمہ حدیث کے دیگر طرق کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے تاکہ فہم حدیث میں دقت پیش نہ آئے۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (فتح الباري:489/1و 496)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ دعائے قنوت (حضور اکرم ﷺ کے دور میں) پڑھی جاتی تھی۔ میں نے پوچھا کہ رکوع سے پہلے یا اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے۔ عاصم نے کہا کہ آپ ہی کے حوالے سے فلاں شخص نے خبر دی ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد فرمایا تھا۔ اس کا جواب حضرت انس نے یہ دیا کہ انہوں نے غلط سمجھا۔ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینہ دعائے قنوت پڑھی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ آپ نے صحابہ میں سے ستر قاریوں کے قریب مشرکوں کی ایک قوم (بنی عامر) کی طرف سے ان کو تعلیم دینے کے لیے بھیجے تھے، یہ لوگ ان کے سوا تھے جن پر آپ نے بد دعا کی تھی۔ ان میں اور آنحضرت ﷺ کے درمیان عہد تھا، لیکن انہوں نے عہد شکنی کی (اور قاریوں کو مار ڈالا) تو آنحضرت ﷺ ایک مہینہ تک (رکوع کے بعد) قنوت پڑھتے رہے ان پر بد دعا کر تے رہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Asim (RA): I asked Anas bin Malik (RA) about the Qunut. Anas (RA) replied, "Definitely it was (recited)". I asked, "Before bowing or after it?" Anas (RA) replied, "Before bowing." I added, "So and so has told me that you had informed him that it had been after bowing." Anas (RA) said, "He told an untruth (i.e. "was mistaken," according to the Hijazi dialect). Allah's Apostle (ﷺ) recited Qunut after bowing for a period of one month." Anas (RA) added, "The Prophet (ﷺ) sent about seventy men (who knew the Qur'an by heart) towards the pagans (of Najd) who were less than they in number and there was a peace treaty between them and Allah's Apostles (but the Pagans broke the treaty and killed the seventy men). So Allah's Apostle (ﷺ) recited Qunut for a period of one month asking Allah to punish them."