Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: The Istisqa' prayer consists of two Rak'a)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1026.
حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے دعائے استسقاء کے موقع پر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنی چادر کو پلٹا۔
تشریح:
حضرت ابن عباس ؓ سے اس سلسلے میں کچھ تفصیل مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بڑی تواضع کے ساتھ، سادہ لباس میں، نہایت عجز و انکسار اور خشوع خضوع کے ساتھ نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ عید کی نماز کی طرح دو رکعت پڑھائیں، تمہارے عام خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ آپ نے خطبے کی حالت میں دعا، تضرع اور اللہ کی عظمت و کبریائی بیان کی۔ (جامع الترمذي، الجمعة، حدیث:558) دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھنا ثابت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1011
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1026
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1026
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1026
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت عباد بن تمیم ؓ کے چچا ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے دعائے استسقاء کے موقع پر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنی چادر کو پلٹا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے اس سلسلے میں کچھ تفصیل مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بڑی تواضع کے ساتھ، سادہ لباس میں، نہایت عجز و انکسار اور خشوع خضوع کے ساتھ نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ عید کی نماز کی طرح دو رکعت پڑھائیں، تمہارے عام خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ آپ نے خطبے کی حالت میں دعا، تضرع اور اللہ کی عظمت و کبریائی بیان کی۔ (جامع الترمذي، الجمعة، حدیث:558) دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھنا ثابت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے دعا ئے استسقاء کی تو دو رکعت نماز پڑھی اور چادر پلٹی۔
حدیث حاشیہ:
استسقاءکی دورکعت نماز سنت ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور کا یہی قول ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ استسقاءکے لیے نماز ہی نہیں تسلیم کرتے، مگر صاحبین نے اس بارے میں حضرت امام کی مخالفت کی ہے اور صلوۃ استسقاء کے سنت ہونے کا اقرار کیا ہے۔ صاحب عرف الشذی نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مد ظلہ العالی جملہ اختلافات کی تشریح کے بعد فرماتے ہیں: قد عرفت بما ذكرنا وجه تخبط الحنفية في بيان مذهب إمامهم، وهو أنه قد نفى الصلاة في الاستسقاء مطلقاً كما هو مصرح في كلام أبي يوسف ومحمد في بيان مذهب أبي حنيفة، ولا شك أن قوله هذا مخالف ومنابذ للسنة الصحيحة الثابتة الصريحة، فاضطربت الحنفية لذلك وتخبطوا في تشريح مذهبه وتعليله حتى اضطر بعضهم إلى الاعتراف بأن الصلاة في الاستسقاء بجماعة سنة، وقال: لم ينكر أبوحنيفة سنيتها واستحبابها، وإنما أنكر كونها سنة مؤكدة، وهذا كما ترى من باب توجيه الكلام بما لا يرضى به قائله؛ لأنه لو كان الأمر كذلك لم يكن بينه وبين صاحبيه خلاف، مع أنه قد صرح جميع الشراح وغيرهم ممن كتب في اختلاف الأئمة بالخلاف بينه وبين الجمهور في هذه المسألة. قال شيخنا في شرح الترمذي: قول الجمهور هو الصواب والحق؛ لأنه قد ثبت صلاته - صلى الله عليه وسلم - ركعتين في الاستسقاء من أحاديث كثيرة صحيحة۔(مرعاة، ج: 2 ص: 390)خلاصہ یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے مطلقا صلوۃ الاستسقاء کا انکار کیا ہے تم پر واضح ہو گیا ہوگا کہ اس بارے میں حنفیہ کو کس قدر پریشان ہونا پڑا ہے حالانکہ حضرت امام ابو یوسف ؒ وحضرت امام محمد کے کلام سے صراحتا ثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا یہی مذہب ہے اور کوئی شک نہیں کہ آپ کا قول سنت صحیحہ کے صراحتا خلاف ہے۔ اس لیے اس کی تاویل اور تشریح اور تعلیل بیان کرنے میں علمائے احناف کو بڑی مشکل پیش آئی ہے حتیٰ کہ بعض نے اعتراف کیا ہے کہ نماز استسقاءجماعت کے ساتھ سنت ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے صرف سنت مؤکدہ ہونے کا انکار کیا ہے۔ یہ قائل کے قول کی ایسی توجیہ ہے جو خود قائل کو بھی پسند نہیں ہے۔ اگر حقیقت یہی ہوتی تو صاحبین ؒ اپنے امام سے اختلاف نہ کرتے۔ اختلافات ائمہ بیان کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں صاف لکھا ہے کہ صلوۃ استسقاءکے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ کا قول جمہور امت کے خلاف ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول ہی درست ہے اور یہی حق ہے کہ نماز استسقاءکی دو رکعتیں رسول کریم ﷺ کی سنت ہیں، جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ پھر حضرت مولانا مرحوم نے اس سلسلہ کی بیشتر احادیث کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، شائقین مزید تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ فرمائیں۔ حضرت امام شافعی ؒ کے نزدیک استسقاء کی دو رکعتیں عیدین کی نمازوں کی طرح تکبیر زوائد کے ساتھ ادا کی جائیں مگر جمہور کے نزدیک اس نماز میں تکبیرات زوائد نہیں ہیں بلکہ ان کو اسی طرح ادا کیا جا ئے جس طرح دیگر نمازیں ادا کی جاتی ہیں، قول جمہور کو ہی ترجیح حاصل ہے۔ نماز استسقاءکے خطبہ کے لیے منبر کا استعمال بھی مستحب ہے۔ جیسا کہ حدیث عائشہ ؓ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے جسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ اس میں صاف فقعد علی المنبر کے لفظ موجود ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abbas bin Tamlm from his uncle, who said, "The Prophet (ﷺ) invoked Allah for rain and offered a two Rakat prayer and he put his cloak inside out."