باب: اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں کہ بارش کب ہو گی
)
Sahi-Bukhari:
Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
(Chapter: Except Allah nobody nobody knows when it will rain)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابوہریرہ ؓ نے نبی کریمﷺسے نقل کیا پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔
1039.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا کہ شکم مادر میں کیا ہے؟ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا؟ کسی کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا؟ کسی کو خبر نہیں کہ بارش کب برسے گی؟‘‘
تشریح:
(1) اس مرکزی عنوان کے اختتام پر امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں ایک نظریاتی اصلاح کو ضروری خیال کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بارش ہونے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ فلاں دن یا فلاں وقت یقینی طور پر بارش ہو جائے گی۔ محکمۂ موسمیات بھی اپنے ظن و تخمین سے پیش گوئی کرتا ہے جو غلط بھی ہو جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں بھی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے: ﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾)’’بےشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ وہی بارش برساتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ شکم مادر میں کیا ہے۔ نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ کل کیا کام کرے گا اور نہ یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں مرے گا۔ یقینا اللہ یہ سب کچھ خوب جاننے والا بڑا باخبر ہے۔‘‘(لقمان34:31) (2) آج کل رحم مادر کے متعلق بہت بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ جدید آلات کے ذریعے سے بچے کے نر اور مادہ ہونے کا پتہ لگا لیا جاتا ہے، حالانکہ ماں کے پیٹ میں صرف نر مادہ نہیں بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب فرشتہ جنین میں روح ڈالتا ہے تو اس کی عمر، اس کی روزی، وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت، الغرض یہ تمام باتیں بھی رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں، نیز جدید آلات سے جو کچھ پتہ لگایا جاتا ہے وہ بھی یقینی اور حتمی نہیں ہوتا۔ روز مرہ کے سینکڑوں واقعات و مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس طرح کی معلومات کے متعلق دلچسپی رکھنا بے سود ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کی پیش گوئی کی بنا پر گھر میں تقریبات کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں کہ اچانک لڑکے کے بجائے لڑکی کی پیدائش ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے، اس لیے الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے سے معلومات لینا فضول شوق کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1023
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1039
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1039
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1039
تمہید کتاب
استسقا، کے لغوی معنی پانی مانگنا ہیں۔ اصطلاحی طور پر قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے سے باران رحمت کی دعا کرنا استسقاء کہلاتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور بندوں کے عجز و انکسار، نیز ان کے لباس میں سادگی کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے۔ مختلف احادیث کے پیش نظر مندرجہ ذیل چیزوں کو اس میں مدنظر رکھا جائے: ٭ قحط سالی کے وقت لوگوں کو نہایت تضرع اور خشوع کے ساتھ باہر کھلے میدان میں جانا چاہیے۔ وہاں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت جہری قراءت سے باجماعت ادا کی جائیں۔ ٭ نماز سے پہلے یا بعد میں خطبہ دیا جائے جو وعظ و نصیحت اور دعا و مناجات پر مشتمل ہو۔ ٭ اس دوران میں دعا کرنا مسنون عمل ہے لیکن اس کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں۔ ٭ آخر میں امام کو چاہیے کہ وہ قبلہ رو ہو کر اپنی چادر کو اس طرح پلٹے کہ اس کا دایاں حصہ بائیں جانب اور بایاں دائیں جانب ہو جائے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کے لیے خصوصی طور پر عنوان بندی کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں چالیس (40) احادیث بیان کی ہیں جن میں نو (9) معلق اور باقی موصول ہیں، نیز ستائیس (27) احادیث مقرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔ ان میں چھ (6) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ دو آثار بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انتیس (29) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ ان عنوانات کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے مشرکین کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر بھی بطور خاص فرمایا ہے، حالانکہ اس کا تعلق استسقاء سے نہیں۔ وہ اس لیے کہ مخالف اشیاء سے اصل اشیاء کی قدروقیمت معلوم ہوتی ہے، یعنی جب بددعا کی جا سکتی ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو بارانِ رحمت کے لیے دعا کا اہتمام بدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اصول کو اپنی صحیح میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسا کہ کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں استسقاء کے علاوہ مسائل بھی بیان کیے ہیں جن کا اس سے گونہ تعلق ہے، مثلاً: بارش کے وقت کیا کہا جائے یا کیا جائے؟ جب تیز ہوا چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے اور اللہ کی طرف سے دیگر نشانیاں دیکھ کر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ آخر میں عقیدے کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ بارش آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ استسقاء کے عام طور پر تین طریقے ہیں: ٭ مطلقاً بارش کی دعا کی جائے۔ ٭ نفل اور فرض نماز، نیز دوران خطبۂ جمعہ میں دعا مانگی جائے۔ ٭ باہر میدان میں دو رکعت ادا کی جائیں اور خطبہ دیا جائے، پھر دعا کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بارش کے لیے ہو سہ طریقوں کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام کو چاہیے کہ صحیح بخاری اور اس سے متعلقہ فوائد کا مطالعہ کرتے وقت ہماری پیش کردہ ان تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عظمت و جلالت اور آپ کے حسن انتخاب کی قدروقیمت معلوم ہو۔ والله يقول الحق ويهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں موصولاً بیان کیا ہے۔ یہ حدیث، حدیث جبرائیل کے نام سے مشہور ہے۔
ابوہریرہ ؓ نے نبی کریمﷺسے نقل کیا پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا کہ شکم مادر میں کیا ہے؟ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا؟ کسی کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا؟ کسی کو خبر نہیں کہ بارش کب برسے گی؟‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس مرکزی عنوان کے اختتام پر امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں ایک نظریاتی اصلاح کو ضروری خیال کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بارش ہونے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ فلاں دن یا فلاں وقت یقینی طور پر بارش ہو جائے گی۔ محکمۂ موسمیات بھی اپنے ظن و تخمین سے پیش گوئی کرتا ہے جو غلط بھی ہو جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں بھی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے: ﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾)’’بےشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ وہی بارش برساتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ شکم مادر میں کیا ہے۔ نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ کل کیا کام کرے گا اور نہ یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں مرے گا۔ یقینا اللہ یہ سب کچھ خوب جاننے والا بڑا باخبر ہے۔‘‘(لقمان34:31) (2) آج کل رحم مادر کے متعلق بہت بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ جدید آلات کے ذریعے سے بچے کے نر اور مادہ ہونے کا پتہ لگا لیا جاتا ہے، حالانکہ ماں کے پیٹ میں صرف نر مادہ نہیں بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب فرشتہ جنین میں روح ڈالتا ہے تو اس کی عمر، اس کی روزی، وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت، الغرض یہ تمام باتیں بھی رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں، نیز جدید آلات سے جو کچھ پتہ لگایا جاتا ہے وہ بھی یقینی اور حتمی نہیں ہوتا۔ روز مرہ کے سینکڑوں واقعات و مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس طرح کی معلومات کے متعلق دلچسپی رکھنا بے سود ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کی پیش گوئی کی بنا پر گھر میں تقریبات کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں کہ اچانک لڑکے کے بجائے لڑکی کی پیدائش ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے، اس لیے الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے سے معلومات لینا فضول شوق کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ ؓ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "پانچ چیزوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے کل کیا کرنا ہو گا، اس کا کسی کو علم نہیں۔ نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے موت کس جگہ آئے گی اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ بارش کب ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
جب اللہ تعالی نے صاف قرآن میں اور پیغمبر صاحب نے فرما دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ برسات کب پڑے گی تو جس شخص میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ ان دھوتی بند پنڈتوں کی بات کیوں مانے گا اور جو مانے اور ان پر اعتقاد رکھے معلوم ہوا وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے اور کافر ہے۔ لطف یہ ہے کہ رات دن پنڈتوں کا جھوٹ اور بے تکا پن دیکھتے جاتے ہیں اور پھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے اگر کافر لوگ ایسا کریں تو چنداں تعجب نہیں۔ حیرت ہوتی ہے باوجود دعویٰ اسلام مسلمان بادشاہ اور امیر نجومیوں کی باتیں سنتے ہیں اور آئندہ واقعات پوچھتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان نام کے مسلمانوں کی عقل کہا ں تشریف لے گئی ہے۔ صدہا مسلمان بادشاہتیں انہیں نجومیوں پہ اعتقاد رکھنے سے تباہ اور برباد ہو چکی ہیں اور اب بھی مسلمان بادشاہ اس حرکت سے باز نہیں آتے جو کفر صریح ہے: لاحول ولا قوة إلا باللہ العظیم (مولانا وحید الزماں) آیت کریمہ میں غیب کی پانچ کنجیوں کو بیان کیا گیا ہے جو خاص اللہ ہی کے علم میں ہیں اور علم غیب خاص اللہ ہی کو حاصل ہے۔ جو لوگ انبیاءاولیاء کے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ قرآن وحدیث کی روسے صریح کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پوری آیت شریفہ یہ ہے: ﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾)(لقمان:34) یعنی’’بے شک قیامت کب قائم ہوگی یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو ہے اور وہی بارش اتارتا ہے ( کسی کو صحیح علم نہیں کہ بالضرورفلاں وقت بارش ہو جائے گی ) اور صرف وہی جانتا ہے کہ مادہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ، اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گااور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون سی زمین پر انتقال کرے گا بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ یہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جن کا علم سوائے اللہ پاک کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔ قیامت کی علامات تو احادیث اور قرآن میں بہت کچھ بتلائی گئی ہیں اور ان میں سے اکثر نشانیاں ظاہر بھی ہو رہی ہیں مگر خاص دن تاریخ وقت یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو حاصل ہے، اسی طرح بارش کے لیے بہت سی علامات ہیں جن کے ظہور کے بعد اکثر بارش ہو جاتی ہے پھر بھی خاص وقت نہیں بتلایا جا سکتا۔ اس لیے کہ بعض دفعہ بہت سی علامتوں کے باوجود بارش ٹل جایا کرتی ہے اور ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ اس کا صحیح علم بھی کسی حکیم ڈاکٹر کو حاصل ہے نہ کسی کاہن نجومی پنڈت ملا کو یہ خاص اللہ پاک ہی جانتا ہے، اسی طرح ہم کل کیا کام کریں گے یہ بھی خاص اللہ ہی کو معلوم ہے جب کہ ہم روزانہ اپنے کاموں کا نقشہ بناتے ہیں مگر بیشتر اوقات وہ جملہ نقشے فیل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قبر کہاں بننے والی ہے۔ الغرض علم غیب جزوی اور کلی طورپر صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے ہاں وہ جس قدر چاہتا ہے کبھی کبھار اپنے محبوب بندوں کو کچھ چیزیں بتلادیا کرتا ہے مگر اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا یہ تو اللہ کا عطیہ ہے وہ جس قدر چاہے اور جب چاہے اور جسے چاہے اس کو بخش دے۔ اس کو غیب دانی کہنا بالکل جھوٹ ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں باب کی مناسبت سے اس حدیث کو نقل فرما کر ثابت فرمایا کہ بارش ہونے کا صحیح علم صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے اور کوئی نہیں بتلا سکتا کہ یقینی طور پر فلاں دن فلاں وقت بارش ہو جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Keys of the unseen knowledge are five which nobody knows but Allah . . . nobody knows what will happen tomorrow; nobody knows what is in the womb; nobody knows what he will gain tomorrow; nobody knows at what place he will die; and nobody knows when it will rain."