باب:اس بارے میں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص علم پہنچائیں ‘
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: It is incumbent on those who are present [in a religious meeting (or conference)] to convey the knowledge to those who are absent)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جناب حضرت رسول اللہ ﷺسے نقل کیا ہے۔ اور ( بخاری کتاب الحج میں یہ تعلیق باسناد موجود ہے
104.
حضرت ابوشریح ؓ سے روایت ہے، انہوں نے (گورنر مدینہ) عمرو بن سعید سے کہا جب کہ وہ مکے کی طرف فوج بھیج رہا تھا: امیر (گورنر) صاحب! مجھے اجازت دے کہ میں تجھے وہ حدیث سناؤں جو نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن بیان فرمائی تھی۔ جسے میرے کانوں نے سنا، دل نے یاد رکھا اور میری دونوں آنکھوں نے آپ کو دیکھا جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ’’مکے (میں جنگ و جدال کرنے) کو اللہ نے حرام کیا ہے لوگوں نے اسے حرام نہیں کیا، لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ مکے میں خون ریزی کرے، یا وہاں سے کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے قتال سے جواز پیدا کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو تو اجازت دی تھی لیکن تمہیں نہیں دی ہے۔ اور مجھے بھی دن میں کچھ وقت کے لیے اجازت تھی اور آج اس کی حرمت پھر ویسی ہی ہو گئی جیسے کل تھی۔ جو شخص یہاں حاضر ہے، اسے چاہئے کہ غائب کو یہ خبر پہنچا دے۔‘‘ حضرت ابوشریح سے پوچھا گیا: عمرو بن سعید نے (حدیث سن کر) کیا کہا؟ (انہوں نے فرمایا:) عمرو نے کہا: ابوشریح! میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ بلاشبہ مکہ کسی گناہ گار کو پناہ نہیں دیتا، نہ کسی کو قتل کر کے فرار ہونے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ’’جو شخص یہاں حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ خبر پہنچادے‘‘ ہمیں خبر دار کرتا ہے کہ اگر علمی مجلس میں کوئی دین کی بات کسی کے کان میں پڑے اور وہ اسے محفوظ کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا ہو تو اسے چاہیے کہ مجلس سے غیر حاضر کو وہ بات پہنچا دے تاکہ اس ذریعے سے عمل و کردار کی اصلاح ہوتی رہے۔ 2۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر نمائندگان بلاد کی مشاورت سے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کر لیا تھا، ان میں انتظامی صلاحیت اور امور خلافت کی قابلیت موجود تھی، پھر بلاد اسلامیہ کے گورنروں کے ذریعے سے باشندگان سے بیعت لی گئی لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت نہ کی، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل کوفہ کی دعوت پر مدینہ منورہ چھوڑ گئے اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ مکرمہ پہنچ کر وہاں کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ یزید نے مدینے کے گورنر عمرو بن سعید کو لکھا کہ مکے میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قتال کے لیے لشکر کشی کی جائے۔ جب انھوں نے مدینے سے مکہ مکرمہ لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فریضہ تبلیغ ادا کیا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ 3۔ حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حق و صداقت پر مبنی باتیں سن کر عمرو بن سعید نے جو جواب دیا وہ (كلمة حق أريد بها الباطل)’’بات صحیح مگر مقاصد برے‘‘ کا آئینہ دار ہے کیونکہ دو مسئلے ہیں۔ ایک ہے حرم مکہ پر فوج کشی اور دوسرا حدود حرم میں مجرم کو سزا دینا۔ اس کا جواب اس لیے غلط تھا کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جلیل القدر اور صاحب منقبت صحابی ہیں وہ نہ تو خون ناحق کرنے کے بعد مکہ میں روپوش ہوئے تھے اور نہ انھوں نے چوری ہی کا ارتکاب کر کے یہاں پناہ لی تھی بہر حال گورنرمدینہ عمرو بن سعید کا یہ اقدام فوج کشی کسی طرح بھی درست نہ تھا۔ (فتح الباري: 263/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
106
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
104
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
104
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
104
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
پہلے باب میں اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے مراجعت کا ذکر تھا، اب دوسروں کو سمجھانے کے لیے مراجعت کا بیان ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے کہ دعوت و تبلیغ علماء کی ذمے داری ہے۔ اس کے لیے علوم وفنون کی تکمیل ضروری نہیں۔جس قدر دینی معلومات حاصل ہوں انھیں آگے پہنچا دیا ائے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ معلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔( صحیح البخاری،الحج ،حدیث 1739۔)
یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جناب حضرت رسول اللہ ﷺسے نقل کیا ہے۔ اور ( بخاری کتاب الحج میں یہ تعلیق باسناد موجود ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوشریح ؓ سے روایت ہے، انہوں نے (گورنر مدینہ) عمرو بن سعید سے کہا جب کہ وہ مکے کی طرف فوج بھیج رہا تھا: امیر (گورنر) صاحب! مجھے اجازت دے کہ میں تجھے وہ حدیث سناؤں جو نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن بیان فرمائی تھی۔ جسے میرے کانوں نے سنا، دل نے یاد رکھا اور میری دونوں آنکھوں نے آپ کو دیکھا جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ’’مکے (میں جنگ و جدال کرنے) کو اللہ نے حرام کیا ہے لوگوں نے اسے حرام نہیں کیا، لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ مکے میں خون ریزی کرے، یا وہاں سے کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے قتال سے جواز پیدا کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو تو اجازت دی تھی لیکن تمہیں نہیں دی ہے۔ اور مجھے بھی دن میں کچھ وقت کے لیے اجازت تھی اور آج اس کی حرمت پھر ویسی ہی ہو گئی جیسے کل تھی۔ جو شخص یہاں حاضر ہے، اسے چاہئے کہ غائب کو یہ خبر پہنچا دے۔‘‘ حضرت ابوشریح سے پوچھا گیا: عمرو بن سعید نے (حدیث سن کر) کیا کہا؟ (انہوں نے فرمایا:) عمرو نے کہا: ابوشریح! میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ بلاشبہ مکہ کسی گناہ گار کو پناہ نہیں دیتا، نہ کسی کو قتل کر کے فرار ہونے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ’’جو شخص یہاں حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ خبر پہنچادے‘‘ ہمیں خبر دار کرتا ہے کہ اگر علمی مجلس میں کوئی دین کی بات کسی کے کان میں پڑے اور وہ اسے محفوظ کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا ہو تو اسے چاہیے کہ مجلس سے غیر حاضر کو وہ بات پہنچا دے تاکہ اس ذریعے سے عمل و کردار کی اصلاح ہوتی رہے۔ 2۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر نمائندگان بلاد کی مشاورت سے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کر لیا تھا، ان میں انتظامی صلاحیت اور امور خلافت کی قابلیت موجود تھی، پھر بلاد اسلامیہ کے گورنروں کے ذریعے سے باشندگان سے بیعت لی گئی لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت نہ کی، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل کوفہ کی دعوت پر مدینہ منورہ چھوڑ گئے اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ مکرمہ پہنچ کر وہاں کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ یزید نے مدینے کے گورنر عمرو بن سعید کو لکھا کہ مکے میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قتال کے لیے لشکر کشی کی جائے۔ جب انھوں نے مدینے سے مکہ مکرمہ لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فریضہ تبلیغ ادا کیا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ 3۔ حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حق و صداقت پر مبنی باتیں سن کر عمرو بن سعید نے جو جواب دیا وہ (كلمة حق أريد بها الباطل)’’بات صحیح مگر مقاصد برے‘‘ کا آئینہ دار ہے کیونکہ دو مسئلے ہیں۔ ایک ہے حرم مکہ پر فوج کشی اور دوسرا حدود حرم میں مجرم کو سزا دینا۔ اس کا جواب اس لیے غلط تھا کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جلیل القدر اور صاحب منقبت صحابی ہیں وہ نہ تو خون ناحق کرنے کے بعد مکہ میں روپوش ہوئے تھے اور نہ انھوں نے چوری ہی کا ارتکاب کر کے یہاں پناہ لی تھی بہر حال گورنرمدینہ عمرو بن سعید کا یہ اقدام فوج کشی کسی طرح بھی درست نہ تھا۔ (فتح الباري: 263/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے، وہ ابوشریح سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عمرو بن سعید (والی مدینہ) سے جب وہ مکہ میں (ابن زبیر سے لڑنے کے لیے) فوجیں بھیج رہے تھے کہا کہ اے امیر! مجھے آپ اجازت دیں تو میں وہ حدیث آپ سے بیان کر دوں، جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس (حدیث) کو میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے اور جب رسول اللہ ﷺ یہ حدیث فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ ﷺ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی۔ آج اس کی حرمت لوٹ آئی، جیسی کل تھی۔ اور حاضر غائب کو (یہ بات) پہنچا دے۔ ( یہ حدیث سننے کے بعد راوی حدیث ) ابوشریح سے پوچھا گیا کہ (آپ کی یہ بات سن کر) عمرو نے کیا جواب دیا؟ کہا یوں کہ اے (ابوشریح!) حدیث کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مگر حرم (مکہ) کسی خطا کار کو یا خون کر کے اور فتنہ پھیلا کر بھاگ آنے والے کو پناہ نہیں دیتا۔
حدیث حاشیہ:
عمروبن سعید یزید کی طرف سے مدینہ کے گورنرتھے، انھوں نے ابوشریح سے حدیث نبوی سن کر تاویل سے کام لیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی فسادی قراردے کر مکہ شریف پر فوج کشی کا جواز نکالا حالانکہ ان کا خیال بالکل غلط تھا۔ حضرت ابن زبیرنہ باغی تھے نہ فسادی تھے۔ نص کے مقابلہ پر رائے وقیاس وتاویلات فاسدہ سے کام لینے والوں نے ہمیشہ اسی طرح فسادات برپا کرکے اہل حق کو ستایا ہے۔ حضرت ابوشریح کا نام خویلد بن عمرو بن صخرہے اور بخاری شریف میں ان سے صرف تین احادیث مروی ہیں۔ 68ھ میں آپ نے انتقال فرمایا رحمہ اللہ ورضی اللہ عنہ۔ چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے حرم مکہ شریف کو اپنے لیے جائے پناہ بنایاتھا۔ اسی لیے یزید نے عمروبن سعید کو مکہ پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ اور حرم مکہ کی سخت بے حرمتی کی گئی۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آج کل بھی اہل بدعت حدیث نبوی کو ایسے بہانے نکال کر رد کر دیتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said (RA): Abu Shuraih said, "When 'Amr bin Said was sending the troops to Makkah (to fight 'Abdullah bin Az-Zubair) I said to him, 'O chief! Allow me to tell you what the Prophet (ﷺ) said on the day following the conquests of Makkah. My ears heard and my heart comprehended, and I saw him with my own eyes, when he said it. He glorified and praised Allah and then said, "Allah and not the people has made Makkah a sanctuary. So anybody who has belief in Allah and the Last Day (i.e. a Muslim) should neither shed blood in it nor cut down its trees. If anybody argues that fighting is allowed in Makkah as Allah's Apostle (ﷺ) did fight (in Makkah), tell him that Allah gave permission to His Apostle, but He did not give it to you. The Prophet (ﷺ) added: Allah allowed me only for a few hours on that day (of the conquest) and today (now) its sanctity is the same (valid) as it was before. So it is incumbent upon those who are present to convey it (this information) to those who are absent." Abu- Shuraih was asked, "What did 'Amr reply?" He said 'Amr said, "O Abu Shuraih! I know better than you (in this respect). Makkah does not give protection to one who disobeys (Allah) or runs after committing murder, or theft (and takes refuge in Makkah).