Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: To seek refuge with Allah from the torment in the grave during eclipse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1050.
پھر رسول اللہ ﷺ ایک روز صبح کے وقت کہیں جانے کے لیے سواری پر سوار ہوئے تو سورج کو گرہن لگ گیا۔ رسول اللہ ﷺ چاشت کے وقت واپس تشریف لائے اور آپ کا گزر ازواج مطہرات کے حجروں کے درمیان سے ہوا۔ اس کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی اور لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ آپ نے طویل قیام فرمایا، پھر طویل رکوع کیا، اس کے بعد رکوع سے اٹھ کر طویل قیام کیا جو پہلے سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ اس کے بعد رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا۔ اس کے بعد آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر اس کے بعد طویل قیام فرمایا جو پہلے سے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ بعد ازاں رکوع سے اٹھے اور سجدہ فرمایا، پھر نماز سے فراغت کے بعد جو کچھ اللہ نے چاہا اسے بیان کیا، پھر لوگوں کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں۔
تشریح:
(1) سورج گرہن کے وقت عذاب قبر سے ڈرانے میں یہ مناسبت ہے کہ جس طرح گرہن کے وقت اندھیرا چھا جاتا ہے اسی طرح بدکاروں اور گناہ گاروں کی قبروں میں بھی اندھیرا ہو گا، اس لیے سورج گرہن کے وقت اندھیرے اور قبر کی تاریکی دونوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ (فتح الباري:694/2) حضرت عائشہ ؓ کا ذہن تھا کہ ثواب و عقاب آخرت میں ہو گا۔ پہلے انہیں عذاب قبر کے متعلق علم نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے بتانے کے بعد انہیں علم ہوا کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ممکن ہے کہ یہودی عورت کو تورات یا پہلی کتابوں سے عذاب قبر کے متعلق معلومات حاصل ہوئی ہوں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب یہودی عورت نے حضرت عائشہ ؓ سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا تو حضرت عائشہ نے اس کا انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ اپنے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کرنا۔ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو آپ نے اس کے متعلق سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عذابِ قبر برحق ہے۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ (عمدة القاري:319/5) (3) واضح رہے کہ اس دن رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم ؓ فوت ہوئے تھے۔ آپ کفن دفن کے سلسلے میں سواری پر سوار ہو کر گئے تھے۔ چاشت کے وقت نماز کسوف کا اہتمام مسجد میں کیا۔ صحیح مسلم کی روایت میں مسجد کی صراحت ہے کہ آپ نے آتے ہی مسجد کا رخ کیا اور نماز کسوف پڑھائی۔ (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث:1059، و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2098 (903))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1033.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1050
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1050
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1050
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
پھر رسول اللہ ﷺ ایک روز صبح کے وقت کہیں جانے کے لیے سواری پر سوار ہوئے تو سورج کو گرہن لگ گیا۔ رسول اللہ ﷺ چاشت کے وقت واپس تشریف لائے اور آپ کا گزر ازواج مطہرات کے حجروں کے درمیان سے ہوا۔ اس کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی اور لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ آپ نے طویل قیام فرمایا، پھر طویل رکوع کیا، اس کے بعد رکوع سے اٹھ کر طویل قیام کیا جو پہلے سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ اس کے بعد رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا۔ اس کے بعد آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ کیا، پھر اس کے بعد طویل قیام فرمایا جو پہلے سے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ بعد ازاں رکوع سے اٹھے اور سجدہ فرمایا، پھر نماز سے فراغت کے بعد جو کچھ اللہ نے چاہا اسے بیان کیا، پھر لوگوں کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) سورج گرہن کے وقت عذاب قبر سے ڈرانے میں یہ مناسبت ہے کہ جس طرح گرہن کے وقت اندھیرا چھا جاتا ہے اسی طرح بدکاروں اور گناہ گاروں کی قبروں میں بھی اندھیرا ہو گا، اس لیے سورج گرہن کے وقت اندھیرے اور قبر کی تاریکی دونوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ (فتح الباري:694/2) حضرت عائشہ ؓ کا ذہن تھا کہ ثواب و عقاب آخرت میں ہو گا۔ پہلے انہیں عذاب قبر کے متعلق علم نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے بتانے کے بعد انہیں علم ہوا کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ممکن ہے کہ یہودی عورت کو تورات یا پہلی کتابوں سے عذاب قبر کے متعلق معلومات حاصل ہوئی ہوں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب یہودی عورت نے حضرت عائشہ ؓ سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا تو حضرت عائشہ نے اس کا انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ اپنے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کرنا۔ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو آپ نے اس کے متعلق سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عذابِ قبر برحق ہے۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ (عمدة القاري:319/5) (3) واضح رہے کہ اس دن رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم ؓ فوت ہوئے تھے۔ آپ کفن دفن کے سلسلے میں سواری پر سوار ہو کر گئے تھے۔ چاشت کے وقت نماز کسوف کا اہتمام مسجد میں کیا۔ صحیح مسلم کی روایت میں مسجد کی صراحت ہے کہ آپ نے آتے ہی مسجد کا رخ کیا اور نماز کسوف پڑھائی۔ (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث:1059، و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2098 (903))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
پھر ایک مرتبہ صبح کو ( کہیں جانے کے لیے ) رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے اس کے بعد سورج گرہن لگا۔ آپ ﷺ دن چڑھے واپس ہوئے اور اپنی بیویوں کے حجروں سے گزرتے ہوئے ( مسجد میں ) نماز کے لیے کھڑے ہوگئے صحابہ ؓ نے بھی آپ کی اقتدا میں نیت باندھ لی۔ آپ ﷺ نے بہت ہی لمبا قیام کیا پھر رکوع بھی بہت طویل کیا، اس کے بعد کھڑے ہوئے اور اب کی دفعہ قیام پھر لمبا کیا لیکن پہلے سے کچھ کم، پھر رکوع کیا ور اس دفعہ بھی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور سجدہ میں گئے۔ اب آپ پھر دوبارہ کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا لیکن پہلے قیام سے کچھ کم، پھر ایک لمبا رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قیام میں اب کی دفعہ بھی بہت دیر تک رہے لیکن پہلے سے کم دیر تک ( چوتھی مرتبہ ) پھر رکوع کیا اور بہت دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر۔ رکوع سے سراٹھایا تو سجدہ میں چلے گئے آخر آپ ﷺ نے اس طرح نماز پوری کر لی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے جو چاہا آپ نے فرمایا اسی خطبہ میں آپ نے لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔
حدیث حاشیہ:
بعض روایتوں میں ہے کہ جب یہود یہ نے حضرت عائشہ ؓ سے عذاب قبر کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا چلو! قبر کا عذاب یہودیوں کو ہوگا۔ مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق، لیکن اس یہودیہ کے ذکر پر انہوں نے آنحضور ﷺ سے پوچھا اور آپ نے اس کا حق ہونا بتا یا۔ اسی روایت میں ہے کہ آنحضور ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی اور یہ نماز کسوف کے خطبہ کا واقعہ 9 ھ میں ہوا۔ حدیث کے آخر ی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے، اس یہودن کو شاید اپنی کتابوں سے قبر عذاب معلوم ہو گیا ہوگا۔ ابن حبان میں سے کہ آیت کریمہ میں لفظ ﴿مَعِیشَة ضَنکاً﴾(طه:124) اس سے عذاب قبر مرا دہے اور حضرت علی ؓ نے کہا کہ ہم کو عذاب قبر کی تحقیق اس وقت ہوئی جب آیت کریمہ ﴿حَتّٰی زُرتُمُ المَقَابِرَ﴾(التکاثر:2) نازل ہوئی اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور قتادہ اور ربیع نے آیت: ﴿سَنُعَذِّبُھُم مَرَّتَینِ﴾(التوبة:101) کی تفسیر میں کہا کہ ایک عذاب دنیا کا اور دوسرا عذاب قبر کا مراد ہے۔ اب اس حدیث میں جو دوسری رکعت میں دون القیام الاول ہے، اس کے مطلب میں اختلاف ہے کہ دوسری رکعت کا قیام اول مراد ہے یا اگلے کل قیام مراد ہیں بعضوں نے کہا چار قیام اور چار رکوع ہیں اور ہر ایک قیام اور رکوع اپنے ما سبق سے کم ہوتا تو ثانی اول سے کم اور ثالث ثانی سے کم اور رابع ثالث سے کم۔ واللہ أعلم۔ یہ جو کسوف کے وقت عذاب قبر سے ڈرایا ا س کی مناسبت یہ ہے کہ جیسے کسوف کے وقت دنیا میں اندھیرا ہو جاتا ہے، ایسے ہی گنہگار کی قبر میں جس پر عذاب ہوگا، اندھیرا چھاجائے گا۔ اللہ تعالی پناہ میں رکھے۔ قبر کا عذاب حق ہے، حدیث اور قرآن سے ثابت ہے جو لوگ عذاب قبر سے انکار کر تے ہیں وہ قرآن وحدیث کا انکار کر تے ہیں, لہذا ان کو اپنے ایمان کے بارے میں فکرکرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Then one day, Allah's Apostle (ﷺ) Rode to go to some place but the sun eclipsed. He returned in the forenoon and passed through the rear of the dwellings (of his wives) and stood for the (eclipse) prayer, and the people stood behind him. He stood up for a long period and then performed a prolonged bowing which was shorter than the first bowing. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up (for the second Raka) for a long while but the standing was shorter than that of the first Raka. Then he performed a prolonged bowing which was shorter than the first one. Then he raised his head and prostrated. Then he stood up for a long time but shorter than the first. Then he performed a prolonged bowing but shorter than the first. Then he raised his head and prostrated and finished the prayer and (then delivered the sermon and) said as much as Allah wished. And then he ordered the people to seek refuge with Allah from the punishment of the grave.