باب: سورج گرہن میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا
)
Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: Offering of Eclipse prayer by women along with men)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1053.
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب سورج کو گرہن لگا تو میں نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ کے گھر آئی۔ میں نے دیکھا کہ لوگ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور حضرت عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا: لوگوں کو کیا حالت درپیش ہے؟ انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اششارہ کرتے ہوئے سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا: اللہ کی طرف سے کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ حضرت اسماء ؓ فرماتی ہیں: میں بھی نماز کے لیے کھڑی ہو گئی حتی کہ (طویل قیام کی وجہ سے) مجھے چکر آنے لگے تو میں نے اپنے سر پر پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’کوئی چیز ایسی نہیں جسے میں نے پہلے نہ دیکھا ہو مگر میں نے اسے اس مقام پر کھڑے دیکھ لیا ہے حتی کہ جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کر لیا ہے۔ میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ تم لوگ فتنہ دجال کی طرح یا اس کے قریب قریب قبروں میں امتحان سے دوچار ہو گے۔ حضرت فاطمہ بنت منذر کہتی ہیں: میں نہیں جانتی کہ اسماء نے مثل یا قریب میں سے کون سا لفظ کہا ۔۔ تم میں سے کسی کو لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا: اس شخص کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ ایمان یا یقین والا ۔۔ فاطمہ کہتی ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ اسماء نے مومن یا موقن میں سے کون سا لفظ کہا ۔۔ وہ کہے گا: یہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جنہوں نے ہمارے سامنے صحیح راستہ اور اس کے دلائل پیش کیے۔ ہم نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور ایمان لے آئے اور ان کی پیروی کی۔ اس سے کہا جائے گا: تو آرام اور سکون سے سو جا۔ ہمیں تو پہلے معلوم تھا کہ تو ایمان و یقین والا ہے۔ لیکن منافق یا شک کرنے والا ۔۔ حضرت فاطمہ کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ اسماء نے منافق یا مرتاب میں سے کون سا لفظ کہا ۔۔ کہے گا: میں ان کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔ میں نے لوگوں سے سنا وہ کچھ بات کہتے تھے تو میں بھی وہی کہنے لگا۔‘‘
تشریح:
امام نووی ؒ اور بعض اہل کوفہ کا خیال ہے کہ عورتیں مردوں کے ہمراہ نماز کسوف ادا نہ کریں، بلکہ وہ انفرادی طور پر نماز ادا کریں، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں نے مردوں کے ساتھ یہ نماز ادا کی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں دیگر خواتین کے ہمراہ حجروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی مسجد میں آئی۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2098(903)) اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس نماز کی ادائیگی کے لیے عورتیں مردوں سے پیچھے ہی کچھ فاصلے پر تھیں جیسا کہ دیگر نمازوں کے وقت مسجد کی پچھلی صفوں میں ہوتی تھیں، لہذا سورج گرہن کے وقت مردوں کے ہمراہ نماز کسوف ادا کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ (فتح الباري:701/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1036
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1053
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1053
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1053
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب سورج کو گرہن لگا تو میں نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ کے گھر آئی۔ میں نے دیکھا کہ لوگ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور حضرت عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا: لوگوں کو کیا حالت درپیش ہے؟ انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اششارہ کرتے ہوئے سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا: اللہ کی طرف سے کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ حضرت اسماء ؓ فرماتی ہیں: میں بھی نماز کے لیے کھڑی ہو گئی حتی کہ (طویل قیام کی وجہ سے) مجھے چکر آنے لگے تو میں نے اپنے سر پر پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’کوئی چیز ایسی نہیں جسے میں نے پہلے نہ دیکھا ہو مگر میں نے اسے اس مقام پر کھڑے دیکھ لیا ہے حتی کہ جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کر لیا ہے۔ میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ تم لوگ فتنہ دجال کی طرح یا اس کے قریب قریب قبروں میں امتحان سے دوچار ہو گے۔ حضرت فاطمہ بنت منذر کہتی ہیں: میں نہیں جانتی کہ اسماء نے مثل یا قریب میں سے کون سا لفظ کہا ۔۔ تم میں سے کسی کو لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا: اس شخص کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ ایمان یا یقین والا ۔۔ فاطمہ کہتی ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ اسماء نے مومن یا موقن میں سے کون سا لفظ کہا ۔۔ وہ کہے گا: یہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جنہوں نے ہمارے سامنے صحیح راستہ اور اس کے دلائل پیش کیے۔ ہم نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور ایمان لے آئے اور ان کی پیروی کی۔ اس سے کہا جائے گا: تو آرام اور سکون سے سو جا۔ ہمیں تو پہلے معلوم تھا کہ تو ایمان و یقین والا ہے۔ لیکن منافق یا شک کرنے والا ۔۔ حضرت فاطمہ کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ اسماء نے منافق یا مرتاب میں سے کون سا لفظ کہا ۔۔ کہے گا: میں ان کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔ میں نے لوگوں سے سنا وہ کچھ بات کہتے تھے تو میں بھی وہی کہنے لگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام نووی ؒ اور بعض اہل کوفہ کا خیال ہے کہ عورتیں مردوں کے ہمراہ نماز کسوف ادا نہ کریں، بلکہ وہ انفرادی طور پر نماز ادا کریں، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں نے مردوں کے ساتھ یہ نماز ادا کی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں دیگر خواتین کے ہمراہ حجروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی مسجد میں آئی۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2098(903)) اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس نماز کی ادائیگی کے لیے عورتیں مردوں سے پیچھے ہی کچھ فاصلے پر تھیں جیسا کہ دیگر نمازوں کے وقت مسجد کی پچھلی صفوں میں ہوتی تھیں، لہذا سورج گرہن کے وقت مردوں کے ہمراہ نماز کسوف ادا کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ (فتح الباري:701/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؓ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کی بیوی فاطمہ بنت منذر نے، انہیں اسماء بن ت ابی بکر ؓ نے، انہوں نے کہا کہ جب سورج کو گرہن لگا تو میں نبی کریم ﷺ کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے گھر آئی۔ اچانک لوگ کھڑے ہو ئے نماز پڑھ رہے تھے اور عائشہ ؓا بھی نماز میں شریک تھی میں نے پوچھا کہ لوگوں کو بات کیا پیش آئی؟ اس پر آپ نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے سبحان اللہ کہا۔ پھر میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ اس کاآپ نے اشارہ سے ہاں میں جواب دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی کھڑی ہو گئی۔ لیکن مجھے چکر آگیا اس لیے میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ وہ چیزیں جو کہ میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں اب انہیں میں نے اپنی اسی جگہ سے دیکھ لیا۔ جنت اور دوزخ تک میں نے دیکھی اور مجھے وحی کے ذریعہ بتا یاگیا ہے کہ تم قبر میں دجال کے فتنہ کی طرح یا ( یہ کہا کہ ) دجال کے فتنہ کے قریب ایک فتنہ میں مبتلا ہو گے۔ مجھے یاد نہیں کہ اسماء ؓا نے کیا کہا تھا آپ نے فرمایا کہ تمہیں لایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ اس شخص ( مجھ ﷺ ) کے بارے میں تم کیا جانتے ہو۔ مومن یا یہ کہا کہ یقین کرنے والا ( مجھے یاد نہیں کہ ان دوباتوں میں سے حضرت اسماء ؓ نے کون سی بات کہی تھی ) تو کہے گا یہ محمد ﷺ ہیں آپ نے ہمارے سامنے صحیح راستہ اور اس کے دلائل پیش کئے اور ہم آپ پر ایمان لائے تھے اور آپ کی بات قبو ل کی اور آپ کا اتباع کیا تھا۔ اس پر اس سے کہا جائے گا کہ تو مرد صالح ہے پس آرام سے سو جاؤ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ تو ایمان و یقین والا ہے۔ منافق یا شک کرنے والا ( مجھے معلوم نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے کیا کہا تھا ) وہ یہ کہے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں میں نے لوگوں سے ایک بات سنی تھی وہی میں نے بھی کہی ( آگے مجھ کو کچھ حقیقت معلوم نہیں )
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے جن میں سے صلوۃ کسوف میں عورت کی شرکت کا مسئلہ بھی ہے اور اس میںعذاب قبر اور امتحان قبر کی تفصیلات بھی شامل ہیں یہ بھی کہ ایمان والے قبر میں آنحضرت ﷺ کی رسالت کی تصدیق اورآپ کی اتباع کا اظہار کریں گے اور بے ایمان لوگ وہاں چکر میں پڑ کر صحیح جواب نہ دے سکیں گے اور دوزخ کے مستحق ہوں گے۔ اللہ ہر مسلمان کو قبر میں ثابت قدمی عطافرمائے (آمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Fatima bint Al-Mundhir (RA): Asma' bint Al Bakr said, "I came to 'Aisha (RA) the wife of the Prophet (ﷺ) during the solar eclipse. The people were standing and offering the prayer and she was also praying too. I asked her, 'What has happened to the people?' She pointed out with her hand towards the sky and said, 'Subhan-Allah'. I said, 'Is there a sign?' She pointed out in the affirmative." Asma' further said, "I too then stood up for the prayer till I fainted and then poured water on my head. When Allah's Apostle (ﷺ) had finished his prayer, he thanked and praised Allah and said, 'I have seen at this place of mine what I have never seen even Paradise and Hell. No doubt, it has been inspired to me that you will be put to trial in the graves like or nearly like the trial of (Masih) Ad-Dajjal. (I do not know which one of the two Asma' said.) (The angels) will come to everyone of you and will ask what do you know about this man (i.e. Muhammad). The believer or a firm believer (I do not know which word Asma' said) will reply, 'He is Muhammad, Allah's Apostle (ﷺ) who came to us with clear evidences and guidance, so we accepted his teachings, believed and followed him.' The angels will then say to him, 'Sleep peacefully as we knew surely that you were a firm believer.' The hypocrite or doubtful person (I do not know which word Asma' said) will say, 'I do not know. I heard the people saying something so I said it (the same).' "