Sahi-Bukhari:
Eclipses
(Chapter: To offer the eclipse prayer in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1056.
پھر ایک دن رسول اللہ ﷺ صبح سویرے (کہیں جانے کے لیے) سواری پر سوار ہوئے جبکہ سورج کو گرہن لگ چکا تھا، چنانچہ چاشت کے وقت واپس تشریف لے آئے اور حجروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے (مسجد میں گئے) اور کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ نے لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، اس کے بعد سر اٹھا کر قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، اس کے بعد سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر لمبا قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، اس کے بعد سجدہ کیا جو پہلے سجدوں سے کم تھا۔ پھر نماز سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے وہ کچھ فرمایا جو اللہ نے چاہا، اس کے بعد آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں اگرچہ نماز کسوف مسجد میں ادا کرنے کی صراحت نہیں، لیکن حجروں کے درمیان سے گزر کر آپ مسجد ہی میں تشریف لائے ہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں دیگر عورتوں کے ہمراہ حجروں کے درمیان سے ہوتی ہوئی مسجد میں آئی اور رسول اللہ ﷺ اپنی سواری سے اتر کر سیدھے وہاں آئے جہاں آپ نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2088(903)) (2) صحیح بات یہ ہے کہ نماز کسوف مسجد میں ادا کرنا مسنون ہے۔ اگر یہ عمل مسجد میں ادا کرنا مسنون نہ ہوتا تو اسے کھلے میدان میں ادا کرنا زیادہ مناسب تھا، کیونکہ اس سے سورج کے روشن ہونے کا جلدی پتہ چل جاتا ہے۔ (فتح الباري:702/2)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1038.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1056
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1056
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1056
تمہید کتاب
لفظ کسوف یا انکساف کے لغوی معنی آفتاب یا ماہتاب کا گہن زدہ ہونا ہیں اور خسوف یا انخساف بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک سورج گہن کے لیے کسوف اور چاند گہن کے لیے لفظ خسوف استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ فقہاء کے نزدیک سورج اور چاند کی روشنی بالکل ختم ہو جانے یا روشنی کا کچھ حصہ چلے جانے پر کسوف اور خسوف کا اطلاق ہوتا ہے لیکن کچھ حضرات فرق کرتے ہیں کہ خسوف اس وقت بولتے ہیں جب چاند اور سورج کی روشنی ختم ہو جائے اگر صرف رنگ تبدیل ہو تو اسے کسوف کہتے ہیں۔ سورج یا چاند گہن کے وقت مخصوص طریقے سے جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے نماز کسوف کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کے نزدیک سورج میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، البتہ کبھی کبھی زمین اور سورج کے درمیان چاند حائل ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بالکل ختم یا کم ہو جاتی ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی بالکل باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک سائنسی توجیہات سے قطع نظر اس کا مقصد تخویف، یعنی لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بے نور کر دیتا ہے۔سائنس دانوں کی بات صحیح بھی ہو تو تخویف کے منافی نہیں جیسا کہ زلزلہ، زمین کے نیچے کسی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن تمام لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب آیات الٰہیہ میں تبدیلی آتی ہے تو نفوس انسانیہ پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ دنیا سے کٹ کر ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت مومن کے لیے بڑی باعث غنیمت ہے کہ وہ نماز اور دعا میں مصروف رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ٹھیک اس دن سورج گہن ہوا جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا سے رخصت ہوئے۔ جمہور اہل سیر کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال 10 ہجری میں ہوا جبکہ آپ غزوۂ تبوک سے واپس آئے تھے۔ گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے اپنی فنی تحقیق سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری بروز سوموار بوقت ساڑھے آٹھ بجے لکھی ہے۔ یہ گہن کئی گھنٹے جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب نمازوں سے زیادہ طویل نماز پڑھائی۔ سورج کے گہن سے نکلنے تک نماز پڑھاتے رہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طویل قیام اور بہت لمبے رکوع و سجود کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ اتنا طویل قیام تھا کہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں بے ہوش ہو کر گرنا اور انہیں ہوش میں لانے کے لیے سر پر پانی ڈالنا بھی روایات سے ثابت ہے۔ اس نماز میں متعدد رکوع کرنے ثابت ہیں لیکن سب سے زیادہ قوی اور صحیح روایت ایک رکعت دو رکوع اور دو سجدوں والی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں صرف ایک مرتبہ نماز کسوف ادا کی گئی، اس لیے اسے متعدد واقعات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا۔ محتاط محدثین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس نماز کی دو رکعت ہیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کی رہنمائی کرنے کے لیے اپنی صحیح میں كتاب الكسوف کا عنوان قائم کیا ہے جس میں تقریبا نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ستائیس (27) احادیث بیان کی ہیں۔ ان صحابۂ کرام نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر انیس (19) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں گہن سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے، مثلاً: اس وقت طویل نماز کا اہتمام، اس کے لیے عام اعلان، خصوصی ہدایات پر مشتمل خطبہ، صدقہ و خیرات کی تلقین، عذاب قبر سے پناہ، باجماعت نماز کا بندوبست، اس میں عورتوں کی شمولیت، غلط عقائد کا ابطال، انتہائی عجز و انکسار اور الحاح و زاری پر مبنی دعائیں وغیرہ۔عربوں میں زمانۂ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت پر سورج گہن ہوتا ہے، گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کے موقع پر کچھ لوگوں کی زبان سے اس قسم کے عقیدے کا اظہار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں خاص طور پر اس عقیدے کی تردید فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے۔ جب کبھی اس کا ظہور ہو تو ہمیں چاہیے کہ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوران نماز میں عالم غیب کے بہت سے حقائق ظاہر کیے گئے: آپ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا اور جہنم میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز مناظر بھی دیکھے۔ آپ نے اپنے خطبے میں ان تمام غیبی مشاہدات کو بیان فرمایا۔چاند گرہن کے وقت بھی غیر معمولی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نماز کا اہتمام کیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم اسی گہن کے وقت ملا اور اس کے بعد آپ چند مہینے اس دنیا میں رونق افراز رہے، ان ایام معدودات میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت چالیس (40) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں بیس (20) موصول اور بیس (20) معلق ہیں، نیز بتیس مکرر اور آٹھ (8) خالص ہیں۔ تین (3) کے سوا دیگر احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی پانچ (5) آثار ہیں جن میں دو (2) موصول اور تین (3) معلق ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضور قلب کے ساتھ کتاب الکسوف کا مطالعہ کریں تاکہ ایمان کی تازگی اور روح کی غذا کا سامان مہیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں اور وہی ہمارے لیے ہر کام میں مددگار و کارساز ہے۔
پھر ایک دن رسول اللہ ﷺ صبح سویرے (کہیں جانے کے لیے) سواری پر سوار ہوئے جبکہ سورج کو گرہن لگ چکا تھا، چنانچہ چاشت کے وقت واپس تشریف لے آئے اور حجروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے (مسجد میں گئے) اور کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ نے لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، اس کے بعد سر اٹھا کر قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، اس کے بعد سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر لمبا قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، اس کے بعد سجدہ کیا جو پہلے سجدوں سے کم تھا۔ پھر نماز سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے وہ کچھ فرمایا جو اللہ نے چاہا، اس کے بعد آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں اگرچہ نماز کسوف مسجد میں ادا کرنے کی صراحت نہیں، لیکن حجروں کے درمیان سے گزر کر آپ مسجد ہی میں تشریف لائے ہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں دیگر عورتوں کے ہمراہ حجروں کے درمیان سے ہوتی ہوئی مسجد میں آئی اور رسول اللہ ﷺ اپنی سواری سے اتر کر سیدھے وہاں آئے جہاں آپ نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:2088(903)) (2) صحیح بات یہ ہے کہ نماز کسوف مسجد میں ادا کرنا مسنون ہے۔ اگر یہ عمل مسجد میں ادا کرنا مسنون نہ ہوتا تو اسے کھلے میدان میں ادا کرنا زیادہ مناسب تھا، کیونکہ اس سے سورج کے روشن ہونے کا جلدی پتہ چل جاتا ہے۔ (فتح الباري:702/2)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
پھر آنحضور ﷺ ایک دن صبح کے وقت سوار ہوئے ( کہیں جانے کے لیے ) ادھر سورج گرہن لگ گیا اس لیے آپ واپس آگئے، ابھی چاشت کا وقت تھا۔ آنحضور ﷺ اپنی بیویوں کے حجروں سے گزرے اور ( مسجد میں ) کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی صحابہ بھی آپ ﷺ کی اقتداء میں صف باندھ کر کھڑے ہوگئے آپ نے قیام بہت لمبا کیا رکوع بھی بہت لمبا کیا پھر رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد دوبارہ لمبا قیام کیا لیکن پہلے سے کم اس کے بعد رکوع بہت لمبا کیا لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم۔ پھر رکوع سے سر اٹھا کر سجدہ میں گئے اور لمبا سجدہ کیا۔ پھر لمبا قیام کیا اور یہ قیام بھی پہلے سے کم تھا۔ پھر لمبا رکوع کیا اگرچہ یہ رکوع بھی پہلے کے مقابلے میں کم تھاپھر آپ رکوع سے کھڑے ہوگئے اور لمبا قیام کیا لیکن یہ قیام پھر پہلے سے کم تھااب ( چوتھا ) رکوع کیا اگر چہ یہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلے میں کم تھا۔ پھر سجدہ کیا بہت لمبا لیکن پہلے سجدہ کے مقابلے میں کم۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد جو کچھ اللہ تعالی نے چاہا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ پھر لوگوں کو سمجھایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر کا عذاب وثواب بر حق ہے۔ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا۔ اس بارے میں شارحین بخاری لکھتے ہیں:لعظم ھو له وأیضا فإن ظلمة الکسوف إذا غمت الشمس تناسب ظلمة القبر والشيئ یذکر فیخاف من ھذا کما یخاف من ھذا ومما یستنبط منه أنه یدل علی أن عذاب القبر حق وأھل السنة مجمعون علی الإیمان به والتصدیق به ولا ینکرہ إلامبتدع۔ (حاشیہ بخاری ) یعنی اس کی ہولناک کیفیت کی وجہ سے آپ نے ایسا فرمایا اوراس لیے بھی کہ سورج گرہن کی کیفیت جب اس کی روشنی غائب ہو جائے قبر کے اندھیرے سے مناسبت رکھتی ہے۔ اسی طرح ایک چیز کا ذکر دوسری چیز کے ذکر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے اوراس سے ڈرایا جاتا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ قبر کا عذاب حق ہے اور جملہ اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے جو عذاب قبر کا انکار کرے وہ بدعتی ہے۔(انتهیٰ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Then one day Allah's Apostle (ﷺ) rode (to leave for some place) but the sun eclipsed. He returned on the forenoon and passed through the rear of the dwellings (of his wives) and stood up and started offering the (eclipse) prayer and the people stood behind him. He stood for a long period and then performed a long bowing and then stood straight for a long period which was shorter than that of the first standing, then he performed a prolonged bowing which was shorter than the first bowing, then he raised his head and prostrated for a long time and then stood up (for the second Raka) for a long while, but the standing was shorter than the standing of the first Raka. Then he performed a prolonged bowing which was shorter than that of the first one. He then stood up for a long time but shorter than the first, then again performed a long bowing which was shorter than the first and then prostrated for a shorter while than that of the first prostration. Then he finished the prayer and delivered the sermon and) said what Allah wished; and ordered the people to seek refuge with Allah from the punishment of the grave.