باب: مسلمانوں کا مشرکوں کے ساتھ سجدہ کرنا حالانکہ مشرک ناپاک ہے (اس کو وضو کہاں سے آیا)۔
)
Sahi-Bukhari:
Prostration During Recital of Qur'an
(Chapter: The prostrattion of Muslims along with Al-Mushrikun; and a Mushrik is Najasun (impure) and does not perform ablution;)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر ؓ بےوضو سجدہ کیا کرتے تھے۔
1071.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ہمراہ اس وقت تمام اہل اسلام، مشرکین اور جن و انس نے سجدہ کیا۔
تشریح:
(1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں امام بخاری ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے اس حدیث سے سجدۂ تلاوت کے لیے وضو کے عدم وجوب کا استدلال کیا ہے۔ کیونکہ مشرکین کے وضو کا کوئی اعتبار نہیں اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں سجدہ کرنے سے منع نہیں کیا۔ حالانکہ امام بخاری ؒ اس قسم کے بے بنیاد استدلال کرنے سے بہت بالا ہیں کیونکہ سجدۂ تلاوت کے لیے طہارت کی ضرورت کو شعبی کے علاوہ دیگر تمام اکابر امت نے تسلیم کیا ہے۔ (المغني:358/2) مشرکین کا سجدہ سرے سے عبادت ہی نہیں تو ان کے لیے وضو اور غیر وضو برابر ہے۔ اگر حضرت ابن عمر ؓ سے بے وضو سجدۂ تلاوت ثابت بھی ہو، جیسا کہ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ہے تو ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ دوران سفر ہوں اور انہوں نے تیمم سے سجدہ کیا ہو۔ پھر ان سے یہ بات ثابت ہے کہ کوئی آدمی طہارت کے بغیر سجدہ نہ کرے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:325/2) اس تفصیل کے پیش نظر یہ یقین کر لینا مشکل ہے کہ امام بخاری ؒ طہارت کے بغیر جواز سجدۂ تلاوت کے قائل ہیں، بلکہ ان کا مشرکین کے متعلق نجس ہونے کی صراحت کرنا کہ ان کا وضو بھی صحیح نہیں اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ ابن عمر کے متعلق باوضو سجدہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، البتہ امام ابن تیمیہ ؒ بے وضو سجدۂ تلاوت کرنے کے قائل ہیں اور انہوں نے امام بخارى ؒ کو بھی اپنے ساتھ خیال کیا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے فتاوی الكبری، باب سجود التلاوة میں اس کی صراحت کی ہے۔ (2) امام ابن حزم ؒ اللہ فرماتے ہیں: جب سجدۂ تلاوت، نماز نہیں تو بغیر وضو جنبی کے لیے، حائضہ کے لیے اور غیر قبلہ کی طرف دیگر تمام اذکار کی طرح مباح اور جائز ہے۔ (المحلی لابن حزم:105/5) البتہ ابن قدامہ ؒ لکھتے ہیں کہ ان سجدہ ہائے تلاوت کے لیے وہی شرط لگائی جائے گی جو نفل کے لیے لگائی جاتی ہے، یعنی حدث اور نجاست سے طہارت، ستر ڈھانپنا، قبلہ رخ ہونا اور نیت کرنا، ہمیں اس میں کسی اختلاف کا علم بھی نہیں۔ (المغني:358/2) اس بحث کے متعلق تحفۃ الاحوذی (3/219) کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک کسی مشقت یا مجبوری کے پیش نظر سجدۂ تلاوت وضو کے بغیر کیا جا سکتا ہے لیکن ایسے حالات میں اسے تیمم سے کام لے لینا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (3) ابراہیم بن طہمان کی روایت جسے انہوں نے ایوب سختیانی سے بیان کیا ہے، علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کی ہے۔ (فتح الباري:781/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1053
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1071
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1071
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1071
تمہید کتاب
سجدۂ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اس کا کلام سن کر سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو کلام الٰہی سن کر سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿١٠٧﴾) "اس قرآن سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (بنی اسرائیل107:17)ایک دوسرے مقام پر فرمایا: (إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩ ﴿٥٨﴾) "برگزیدہ لوگوں پر جب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں۔" (مریم58:19)دوسرے لوگوں پر بایں الفاظ عتاب فرمایا: (فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ ﴿٢١﴾) "پھر ان (کفار) کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔" (الانشقاق84: 20،21)سجدۂ تلاوت بجا لانے سے شیطان روتا پیٹتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم کسی سجدے والی آیت کو تلاوت کرتا اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، کہ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا، لہذا اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا، لہذا میرے لیے جہنم ہے۔ (صحیح مسلم،الایمان،حدیث:244(81))سجدۂ تلاوت کی حیثیت کیا ہے؟ ان کی تعداد کتنی ہے؟ نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت مشروع ہے؟ سجدۂ تلاوت کی شرائط کیا ہیں؟ اس میں کون سی دعا پڑھنی ہے؟ ایک مجلس میں بار بار آیت سجدہ تلاوت کی جائے تو کیا حکم ہے؟ سجدۂ تلاوت کا کیا طریقہ ہے؟ کیا اس کے بعد سلام پھیرنا ہے؟ نیز کیا آیت سجدہ سننے پر سجدہ کرنا مشروع ہے؟ اور اس طرح کے دیگر مسائل کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً پندرہ (15) احادیث پیش کی ہیں اور ان پر بارہ (12) عنوان قائم کر کے سجدۂ تلاوت سے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسنادی حقائق و رموز بھی ذکر کیے ہیں جنہیں ہم ان شاءاللہ تفصیل سے بیان کریں گے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کے تحت پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں جن میں دو (2) معلق اور نو (9) مکرر ہیں۔ خالص احادیث کی تعداد چھ (6) ہے۔ امام مسلم نے دو (2) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں عملی تبدیلی لانے کے لیے صحیح بخاری کا مطالعہ کریں۔ اسے پڑھتے وقت ہماری معروضات کو بھی مدنظر رکھیں، اس طرح جہاں ہمارے قلوب و اذہان میں کشادگی پیدا ہو گی وہاں امام بخاری رحمہ اللہ سے تعلق خاطر کے لیے بھی راستہ ہموار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کا حق دار بنائے اور زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ آمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ہمراہ اس وقت تمام اہل اسلام، مشرکین اور جن و انس نے سجدہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں امام بخاری ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے اس حدیث سے سجدۂ تلاوت کے لیے وضو کے عدم وجوب کا استدلال کیا ہے۔ کیونکہ مشرکین کے وضو کا کوئی اعتبار نہیں اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں سجدہ کرنے سے منع نہیں کیا۔ حالانکہ امام بخاری ؒ اس قسم کے بے بنیاد استدلال کرنے سے بہت بالا ہیں کیونکہ سجدۂ تلاوت کے لیے طہارت کی ضرورت کو شعبی کے علاوہ دیگر تمام اکابر امت نے تسلیم کیا ہے۔ (المغني:358/2) مشرکین کا سجدہ سرے سے عبادت ہی نہیں تو ان کے لیے وضو اور غیر وضو برابر ہے۔ اگر حضرت ابن عمر ؓ سے بے وضو سجدۂ تلاوت ثابت بھی ہو، جیسا کہ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ہے تو ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ دوران سفر ہوں اور انہوں نے تیمم سے سجدہ کیا ہو۔ پھر ان سے یہ بات ثابت ہے کہ کوئی آدمی طہارت کے بغیر سجدہ نہ کرے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:325/2) اس تفصیل کے پیش نظر یہ یقین کر لینا مشکل ہے کہ امام بخاری ؒ طہارت کے بغیر جواز سجدۂ تلاوت کے قائل ہیں، بلکہ ان کا مشرکین کے متعلق نجس ہونے کی صراحت کرنا کہ ان کا وضو بھی صحیح نہیں اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ ابن عمر کے متعلق باوضو سجدہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، البتہ امام ابن تیمیہ ؒ بے وضو سجدۂ تلاوت کرنے کے قائل ہیں اور انہوں نے امام بخارى ؒ کو بھی اپنے ساتھ خیال کیا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے فتاوی الكبری، باب سجود التلاوة میں اس کی صراحت کی ہے۔ (2) امام ابن حزم ؒ اللہ فرماتے ہیں: جب سجدۂ تلاوت، نماز نہیں تو بغیر وضو جنبی کے لیے، حائضہ کے لیے اور غیر قبلہ کی طرف دیگر تمام اذکار کی طرح مباح اور جائز ہے۔ (المحلی لابن حزم:105/5) البتہ ابن قدامہ ؒ لکھتے ہیں کہ ان سجدہ ہائے تلاوت کے لیے وہی شرط لگائی جائے گی جو نفل کے لیے لگائی جاتی ہے، یعنی حدث اور نجاست سے طہارت، ستر ڈھانپنا، قبلہ رخ ہونا اور نیت کرنا، ہمیں اس میں کسی اختلاف کا علم بھی نہیں۔ (المغني:358/2) اس بحث کے متعلق تحفۃ الاحوذی (3/219) کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک کسی مشقت یا مجبوری کے پیش نظر سجدۂ تلاوت وضو کے بغیر کیا جا سکتا ہے لیکن ایسے حالات میں اسے تیمم سے کام لے لینا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (3) ابراہیم بن طہمان کی روایت جسے انہوں نے ایوب سختیانی سے بیان کیا ہے، علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کی ہے۔ (فتح الباري:781/8)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ وضو کے بغیر ہی سجدہ تلاوت کر لیتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے سورہ النجم میں سجدہ کیا تو مسلمانوں، مشرکوں اور جن و انس سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ اس حدیث کی روایت ابراہیم بن طہمان نے بھی ایوب سختیانی سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ظاہر ہے کہ مسلمان بھی اس وقت سب باوضو نہ ہوں گے اور مشرکوں کے وضو کا تو کوئی سوال ہی نہیں پس بے وضو سجدہ کرنے کا جواز نکلا اور امام بخاری ؒ کا بھی یہی قول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) I prostrated while reciting An-Najm and with him prostrated the Muslims, the pagans, the jinns, and all human beings