Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: As-Salat (the prayers) at Mina (during Hajj))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1084.
حضرت عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں چار رکعات پڑھائیں۔ جب اس بات کا تذکرہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کیا گیا تو انہوں نے إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ بھی منیٰ میں دو دو رکعتیں پڑھیں، کاش کہ چار رکعتوں کے بجائے میرے حصے میں وہی دو رکعتیں آئیں جو اللہ کے ہاں مقبول ہوں۔
تشریح:
(1) روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک دوران سفر میں قصر کرنا واجب ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو صرف إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنے پر اکتفا نہ کرتے۔ دیگر روایات کے پیش نظر جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے ان کے ہمراہ چار رکعات کیوں پڑھی ہیں؟ تو جواب دیا کہ ایسے موقع پر اختلاف کرنا شروفساد کا پیش خیمہ ہے۔ اگر دوران سفر میں نماز کو پورا پڑھنا بدعت ہوتا تو بدعت سے اختلاف کرنا تو باعث برکت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا فرض نہیں، البتہ جذبۂ اتباع سنت کے پیش نظر انہوں نے اپنی سخت ناگواری کا اظہار ضرور فرمایا۔ (فتح الباري:729/2) (2) حضرت عثمان ؓ نے حج کے موقع پر منیٰ میں قیام کے دوران چار رکعت پڑھائی تھیں۔ محدثین کرام نے اس کی متعدد توجیہات بیان کی ہیں جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی افضل ہے کہ دوران سفر میں نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری ادا کرتا ہے تو یہ جائز ہے، ایسا کرنا بدعت کے زمرے میں نہیں آتا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1066
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1084
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1084
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1084
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں چار رکعات پڑھائیں۔ جب اس بات کا تذکرہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کیا گیا تو انہوں نے إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ بھی منیٰ میں دو دو رکعتیں پڑھیں، کاش کہ چار رکعتوں کے بجائے میرے حصے میں وہی دو رکعتیں آئیں جو اللہ کے ہاں مقبول ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک دوران سفر میں قصر کرنا واجب ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو صرف إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنے پر اکتفا نہ کرتے۔ دیگر روایات کے پیش نظر جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے ان کے ہمراہ چار رکعات کیوں پڑھی ہیں؟ تو جواب دیا کہ ایسے موقع پر اختلاف کرنا شروفساد کا پیش خیمہ ہے۔ اگر دوران سفر میں نماز کو پورا پڑھنا بدعت ہوتا تو بدعت سے اختلاف کرنا تو باعث برکت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا فرض نہیں، البتہ جذبۂ اتباع سنت کے پیش نظر انہوں نے اپنی سخت ناگواری کا اظہار ضرور فرمایا۔ (فتح الباري:729/2) (2) حضرت عثمان ؓ نے حج کے موقع پر منیٰ میں قیام کے دوران چار رکعت پڑھائی تھیں۔ محدثین کرام نے اس کی متعدد توجیہات بیان کی ہیں جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی افضل ہے کہ دوران سفر میں نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری ادا کرتا ہے تو یہ جائز ہے، ایسا کرنا بدعت کے زمرے میں نہیں آتا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبد الرحمن بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہمیں عثمان بن عفان ؓ نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی تھی لیکن جب اس کا ذکر عبد اللہ بن مسعود ؓ سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ پھر کہنے لگے میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ منی ٰ میں دو رکعت نماز پڑھی ہے اور ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ بھی میں نے دو ہی رکعت ہی پڑھی ہیں اور عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ بھی دو رکعت پڑھی تھی کاش میرے حصہ میں ان چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہوتیں۔
حدیث حاشیہ:
حضور اکرم ﷺ اور ابو بکر اور عمر ؓ کی منیٰ میں نماز کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ آپ حضرات حج کے ارادہ سے جاتے اور حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے منیٰ میں بھی قیام کیا ہوتا۔ یہاں سفر کی حالت میں ہوتے تھے اس لیے قصر کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ ابو بکر اور عمر ؓ کا ہمیشہ یہی معمول تھا کہ منیٰ میں قصر کرتے تھے۔ عثمان ؓ نے بھی ابتدائی دور خلافت میں قصر کیا، لیکن بعد میں جب پوری چار رکعتیں آپ نے پڑھیں تو ابن مسعود ؓ نے اس پر سخت ناگواری کا اظہار فرمایا۔ دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے بھی پوری چار رکعت پڑھنے کا عذر بیان کیا تھا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur Rahman bin Yazid (RA): We offered a four Rakat prayer at Mina behind Ibn 'Affan . 'Abdullah bin Masud was informed about it. He said sadly, "Truly to Allah we belong and truly to Him we shall return." And added, "I prayed two Rakat with Allah's Apostle (ﷺ) at Mina and similarly with Abu Bakr (RA) and with 'Umar (during their caliphates)." He further said, "May I be lucky enough to have two of the four Rakat accepted (by Allah)." ________ Volume 2, Book 20, Number 190: Narrated 'Abdur Rahman bin Yazid (RA): We offered a four Rakat prayer at Mina behind Ibn 'Affan . 'Abdullah bin Masud was informed about it. He said sadly, "Truly to Allah we belong and truly to Him we shall return." And added, "I prayed two Rakat with Allah's Apostle (ﷺ) at Mina and similarly with Abu Bakr (RA) and with 'Umar (during their caliphates)." He further said, "May I be lucky enough to have two of the four Rakat accepted (by Allah)." ________