باب: جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی سے نکل جائے تو قصر کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: When a traveller leaves his original place, he can shorten his Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور علی بن ابی طالبؓ (کوفہ سے سفر کے ارادہ سے) نکلے تو نماز قصر کرنی اسی وقت سے شروع کر دی جب ابھی کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے اور پھر واپسی کے وقت بھی جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ کوفہ سامنے ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب تک ہم شہر میں داخل نہ ہو جائیں نماز پوری نہیں پڑھیں گے۔
1090.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: پہلے پہلے (سفر و حضر کی) نماز دو رکعتیں فرض کی گئی تھی۔ پھر سفر کی نماز تو برقرار رہی، البتہ صلاۃ حضر میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ امام زہری نے حضرت عروہ سے سوال کیا: ایسے حالات میں حضرت عائشہ ؓ دوران سفر میں نماز کو پورا کیوں پڑھتی ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: انہوں نے وہی تاویل کی ہے جو حضرت عثمان ؓ کرتے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قصر کا تعلق سفر سے ہے اور اتمام کا حضر سے۔ جب سفر شروع ہو گا تو نماز قصر کا آغاز ہو گا جبکہ حضر میں نماز کو پورا کرنا ہو گا۔ (2) سفر کرنے والا جب تک اپنے شہر میں ہے اسے مسافر نہیں کہا جائے گا اور نہ اسے قصر ادا کرنے کی اجازت ہی ہے، جب اپنے شہر سے نکل جائے تو قصر کا آغاز کرے۔ (3) اس حدیث کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ دوران سفر میں قصر کرنا واجب ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت عائشہ ؓ جو اس حدیث کو بیان کرتی خود دوران سفر میں پوری نماز کیوں ادا کرتیں، البتہ حضرت عائشہ ؓ کا یہ موقف تھا کہ نماز قصر اس مسافر کے لیے ہے جو مسلسل سفر کرتا رہے اور کسی جگہ اقامت نہ کرے۔ جہاں کچھ دنوں کے لیے اقامت کرے گا وہاں نماز پوری ادا کرے گا، پھر جب سفر کا آغاز ہو گا تو قصر نماز ادا کرے گا۔ حضرت عثمان ؓ کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ وہ جب مکہ آتے تو پوری نماز پڑھتے، یعنی ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار رکعت پڑھتے، پھر جب منیٰ اور عرفات جاتے تو قصر کرتے، اور جب حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں قیام کرتے تو بھی پوری نماز پڑھتے کرتے۔ (فتح الباري:737/2)واللہ أعلم۔ (4) حضرت عثمان ؓ کی تاویل کے متعلق مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ آپ نے مکہ مکرمہ میں شادی کر لی تھی۔ ٭ آپ امیر المومنین تھے اور آپ کے لیے سارا علاقہ اقامت کے حکم میں تھا۔ ٭ آپ نے مکہ میں رہائش رکھنے کا عزم کر لیا تھا۔ ٭ آپ نے منیٰ میں زمین خرید لی تھی۔ یہ تاویلیں اس لیے بے بنیاد ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ان میں سے کوئی بھی منقول نہیں، ویسے بھی ان تاویلات پر کوئی دلیل نہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کے ہمراہ سفر کرتے تھے اور نماز قصر پڑھتے تھے، اس کے مقابلے میں حضرت عثمان سے متعلق پہلی تاویل کی کوئی حیثیت نہیں ہے، پھر امیر المومنین کے حوالے سے جو تاویل ذکر کی گئی ہے وہ بھی بے بنیاد ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی حیثیت تو ان سے بڑھ کر تھی، لیکن آپ تو دوران سفر میں قصر کرتے تھے۔ تیسری تاویل اس لیے درست نہیں کہ مہاجرین کے لیے مکہ مکرمہ میں اقامت منع ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت عروہ نے یہ تشبیہ صرف نماز کو پورا ادا کرنے میں دی ہو، اس لے نہیں کہ ان حضرات کی تاویلات میں یکسانیت تھی۔ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ایک تاویل حسب ذیل ہے جسے ابن جریر نے اپنی تفسیر جامع البیان (تفسیر طبري) میں بیان کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ دوران سفر پوری نماز پڑھتی تھیں۔ جب انہیں اس کے متعلق کہا جاتا تو جواب میں فرماتیں: رسول اللہ ﷺ کو دشمنان اسلام کی طرف سے ہر وقت اندیشۂ جنگ رہتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نماز قصر کی اجازت دی تھی، کیا تمہیں بھی کوئی دشمن کی طرف سے خطرہ لاحق ہے؟ (تفسیر الطبري:245/4) گویا حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا اندیشۂ جنگ کے ساتھ مشروط تھا۔ واللہ أعلم۔ بیہقی کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ کا دوران سفر نماز پوری پڑھنا بایں الفاظ بیان ہوا ہے، حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ دوران سفر چار رکعت پڑھتی تھیں۔ میں نے عرض کیا آپ دوگانہ کیوں نہیں پڑھتیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دوران سفر نماز کو پورا ادا کرنا مجھ پر گراں نہیں گزرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا ایک رخصت ہے۔ جس انسان پر اتمام گراں نہ ہو اس کے حق میں یہی افضل ہے کہ وہ اسے پورا کرے۔ (فتح الباري:737/2) حضرت عثمان ؓ کے متعلق ایک اور تاویل کتب حدیث میں مروی ہے، جسے امام بیہقی نے بیان کیا ہے: حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں قیام کے دوران میں نماز پوری ادا کی پھر خطبہ دیا کہ بلاشبہ قصر کرنا رسول اللہ ﷺ اور صاحبین ؓ کی سنت ہے لیکن اعراب (دیہاتی لوگ) بکثرت ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا وہ دوگانہ نماز کو ہمیشہ کے لیے سمجھ لیں گے۔ اس کی تائید ابن جریج سے مروی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دیہاتی نے منیٰ میں برسرعام پکار کر کہا: اے امیر المومنین! جب سے میں نے آپ کو دوگانہ پڑھتے دیکھا ہے میں اس وقت سے دوگانہ پڑھ رہا ہوں۔ ممکن ہے حضرت عثمان ؓ نے اس وجہ سے منیٰ میں اتمام (پوری نماز) کو اختیار کیا ہو، بہرحال حضرت عثمان اور حضرت عائشہ ؓ کی تاویلات میں کوئی مماثلت نہیں۔ (فتح الباري:737/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی شرح تراجم بخاری میں حضرت عثمان ؓ کے قصر نہ کرنے کا یہی سبب بیان کیا ہے اور اسے مستحسن قرار دیا ہے، کیونکہ خیر کثیر کو شر قلیل کی وجہ سے ترک کرنا بھی خیر کثیر ہی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1072
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1090
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1090
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1090
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
اگر کوئی مسافر کم از کم نو میل کی مسافت طے کرنے کے لیے اپنے گھر سے سفر کی نیت سے نکل پڑے تو اسے حدود شہر، موجودہ اصطلاح میں میونسپلٹی کی حدود سے نکلنے کے بعد نماز قصر کرنے کی اجازت ہے اور اس طرح واپسی پر بھی اس میں داخل ہونے سے پہلے دوگانہ پڑھ سکتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام حاکم نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سفر کے لیے نکلے تو قصر نماز پڑھنا شروع کر دی جبکہ ہمیں اپنی آبادی کے گھر نظر آ رہے تھے اور واپسی پر بھی نماز قصر پڑھتے رہے جبکہ ہمیں اپنی آبادی کے گھر نظر آ رہے تھے۔ (فتح الباری:2/735) امام بیہقی رحمہ اللہ نے بایں الفاظ روایت کی ہے: وقاء بن ایاس کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ملک شام گئے تو دوگانہ پڑھتے رہے۔ واپسی پر جب ہمیں کوفہ نظر آیا اور نماز کا وقت ہو گیا تو لوگوں نے آپ سے کہا: وہ کوفہ نظر آ رہا ہے، آپ نماز پوری پڑھائیں، آپ نے فرمایا: نہیں جب تک اس میں داخل نہ ہو جائیں قصر پڑھتے رہیں گے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:3/146)
اور علی بن ابی طالبؓ (کوفہ سے سفر کے ارادہ سے) نکلے تو نماز قصر کرنی اسی وقت سے شروع کر دی جب ابھی کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے اور پھر واپسی کے وقت بھی جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ کوفہ سامنے ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب تک ہم شہر میں داخل نہ ہو جائیں نماز پوری نہیں پڑھیں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: پہلے پہلے (سفر و حضر کی) نماز دو رکعتیں فرض کی گئی تھی۔ پھر سفر کی نماز تو برقرار رہی، البتہ صلاۃ حضر میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ امام زہری نے حضرت عروہ سے سوال کیا: ایسے حالات میں حضرت عائشہ ؓ دوران سفر میں نماز کو پورا کیوں پڑھتی ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: انہوں نے وہی تاویل کی ہے جو حضرت عثمان ؓ کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قصر کا تعلق سفر سے ہے اور اتمام کا حضر سے۔ جب سفر شروع ہو گا تو نماز قصر کا آغاز ہو گا جبکہ حضر میں نماز کو پورا کرنا ہو گا۔ (2) سفر کرنے والا جب تک اپنے شہر میں ہے اسے مسافر نہیں کہا جائے گا اور نہ اسے قصر ادا کرنے کی اجازت ہی ہے، جب اپنے شہر سے نکل جائے تو قصر کا آغاز کرے۔ (3) اس حدیث کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ دوران سفر میں قصر کرنا واجب ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت عائشہ ؓ جو اس حدیث کو بیان کرتی خود دوران سفر میں پوری نماز کیوں ادا کرتیں، البتہ حضرت عائشہ ؓ کا یہ موقف تھا کہ نماز قصر اس مسافر کے لیے ہے جو مسلسل سفر کرتا رہے اور کسی جگہ اقامت نہ کرے۔ جہاں کچھ دنوں کے لیے اقامت کرے گا وہاں نماز پوری ادا کرے گا، پھر جب سفر کا آغاز ہو گا تو قصر نماز ادا کرے گا۔ حضرت عثمان ؓ کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ وہ جب مکہ آتے تو پوری نماز پڑھتے، یعنی ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار رکعت پڑھتے، پھر جب منیٰ اور عرفات جاتے تو قصر کرتے، اور جب حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں قیام کرتے تو بھی پوری نماز پڑھتے کرتے۔ (فتح الباري:737/2)واللہ أعلم۔ (4) حضرت عثمان ؓ کی تاویل کے متعلق مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ آپ نے مکہ مکرمہ میں شادی کر لی تھی۔ ٭ آپ امیر المومنین تھے اور آپ کے لیے سارا علاقہ اقامت کے حکم میں تھا۔ ٭ آپ نے مکہ میں رہائش رکھنے کا عزم کر لیا تھا۔ ٭ آپ نے منیٰ میں زمین خرید لی تھی۔ یہ تاویلیں اس لیے بے بنیاد ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ان میں سے کوئی بھی منقول نہیں، ویسے بھی ان تاویلات پر کوئی دلیل نہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کے ہمراہ سفر کرتے تھے اور نماز قصر پڑھتے تھے، اس کے مقابلے میں حضرت عثمان سے متعلق پہلی تاویل کی کوئی حیثیت نہیں ہے، پھر امیر المومنین کے حوالے سے جو تاویل ذکر کی گئی ہے وہ بھی بے بنیاد ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی حیثیت تو ان سے بڑھ کر تھی، لیکن آپ تو دوران سفر میں قصر کرتے تھے۔ تیسری تاویل اس لیے درست نہیں کہ مہاجرین کے لیے مکہ مکرمہ میں اقامت منع ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت عروہ نے یہ تشبیہ صرف نماز کو پورا ادا کرنے میں دی ہو، اس لے نہیں کہ ان حضرات کی تاویلات میں یکسانیت تھی۔ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ایک تاویل حسب ذیل ہے جسے ابن جریر نے اپنی تفسیر جامع البیان (تفسیر طبري) میں بیان کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ دوران سفر پوری نماز پڑھتی تھیں۔ جب انہیں اس کے متعلق کہا جاتا تو جواب میں فرماتیں: رسول اللہ ﷺ کو دشمنان اسلام کی طرف سے ہر وقت اندیشۂ جنگ رہتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نماز قصر کی اجازت دی تھی، کیا تمہیں بھی کوئی دشمن کی طرف سے خطرہ لاحق ہے؟ (تفسیر الطبري:245/4) گویا حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا اندیشۂ جنگ کے ساتھ مشروط تھا۔ واللہ أعلم۔ بیہقی کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ کا دوران سفر نماز پوری پڑھنا بایں الفاظ بیان ہوا ہے، حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ دوران سفر چار رکعت پڑھتی تھیں۔ میں نے عرض کیا آپ دوگانہ کیوں نہیں پڑھتیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دوران سفر نماز کو پورا ادا کرنا مجھ پر گراں نہیں گزرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا ایک رخصت ہے۔ جس انسان پر اتمام گراں نہ ہو اس کے حق میں یہی افضل ہے کہ وہ اسے پورا کرے۔ (فتح الباري:737/2) حضرت عثمان ؓ کے متعلق ایک اور تاویل کتب حدیث میں مروی ہے، جسے امام بیہقی نے بیان کیا ہے: حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں قیام کے دوران میں نماز پوری ادا کی پھر خطبہ دیا کہ بلاشبہ قصر کرنا رسول اللہ ﷺ اور صاحبین ؓ کی سنت ہے لیکن اعراب (دیہاتی لوگ) بکثرت ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا وہ دوگانہ نماز کو ہمیشہ کے لیے سمجھ لیں گے۔ اس کی تائید ابن جریج سے مروی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دیہاتی نے منیٰ میں برسرعام پکار کر کہا: اے امیر المومنین! جب سے میں نے آپ کو دوگانہ پڑھتے دیکھا ہے میں اس وقت سے دوگانہ پڑھ رہا ہوں۔ ممکن ہے حضرت عثمان ؓ نے اس وجہ سے منیٰ میں اتمام (پوری نماز) کو اختیار کیا ہو، بہرحال حضرت عثمان اور حضرت عائشہ ؓ کی تاویلات میں کوئی مماثلت نہیں۔ (فتح الباري:737/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی شرح تراجم بخاری میں حضرت عثمان ؓ کے قصر نہ کرنے کا یہی سبب بیان کیا ہے اور اسے مستحسن قرار دیا ہے، کیونکہ خیر کثیر کو شر قلیل کی وجہ سے ترک کرنا بھی خیر کثیر ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت علی ؓ (سفر کے لیے) نکلے تو نماز قصر پڑھی جبکہ وہ شہر کے مکانات کو دیکھ رہے تھے اور جب واپس آئے تو ان سے کہا گیا: وہ کوفہ نظر آ رہا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس میں داخل ہونے سے پہلے نماز پوری ادا نہیں کریں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓا نے کہا کہ پہلے نماز دو رکعت فرض ہوئی تھی بعد میں سفر کی نماز تواپنی اسی حالت پر رہ گئی البتہ حضر کی نماز پوری (چار رکعت) کردی گئی۔ زہری نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ پھر خود حضرت عائشہ ؓ نے کیوں نماز پوری پڑھی تھی انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ عثمان ؓ نے اس کی جو تاویل کی تھی وہی انہوں نے بھی کی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان ؓ نے جب منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو فرمایا کہ میں نے یہ اس لیے کیا کہ بہت سے عوام مسلمان جمع ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نماز کی دو ہی رکعت سمجھ لیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے بھی حج کے موقعہ پر نماز پوری پڑھی اور قصر نہیں کیا، حالانکہ آپ مسافر تھیں۔ اس لیے آپ کو نماز قصر کرنی چاہیے تھی۔ مگر آپ سفر میں پوری نماز پڑھنا بہتر جانتی تھیں اور قصر کورخصت سمجھتی تھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): "When the prayers were first enjoined they were of two Rakat each. Later the prayer in a journey was kept as it was but the prayers for non-travellers were completed." Az-Zuhri said, "I asked 'Urwa what made Aisha (RA) pray the full prayers (in journey)." He replied, "She did the same as 'Uthman did." ________