باب: سفر میں جس نے فرض نماز سے پہلے اور پیچھے سنتوں کو نہیں پڑھا۔
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: Whoever did not offer the Nawafil before and after the (compulsory) Salat during a journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1101.
حفص بن عاصم سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سفر میں تھے کہ فرمایا: میں نبی ﷺ کا ہم سفر رہا ہوں، میں نے آپ کو کبھی دوران سفر میں نفل پڑھتے نہیں دیکھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1081
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1101
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1101
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1101
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حفص بن عاصم سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سفر میں تھے کہ فرمایا: میں نبی ﷺ کا ہم سفر رہا ہوں، میں نے آپ کو کبھی دوران سفر میں نفل پڑھتے نہیں دیکھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان کوفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد بن یزید نے بیان کیا کہ حفص بن عاصم بن عمر نے ان سے بیا ن کیا کہ میں نے سفر میں سنتوں کے متعلق عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہا ہوں۔ میں نے آپ کو سفر میں کبھی سنتیں پڑھتے نہیں دیکھا اور اللہ جل ذکرہ کا ارشاد ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ سفرمیں خالی فرض نماز کی دو رکعتیں ظہر وعصر میں کافی ہیں سنت نہ پڑھنا بھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hafs bin 'Asim (RA): Ibn 'Umar (RA) went on a journey and said, "I accompanied the Prophet (ﷺ) and he did not offer optional prayers during the journey, and Allah says: 'Verily! In Allah's Apostle (ﷺ) you have a good example to follow.' " (33.21)