Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: To offer Maghrib and "Isha" prayers together on a journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1108.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سفر میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ علی بن مبارک اور حرب بن شدادنے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کرنے میں حسین المعلم کی متابعت کی ہے کہ نبی ﷺ نے نمازوں کو جمع کیا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے نماز قصر کے تحت نمازوں کا جمع کرنا بیان کیا ہے، کیونکہ جمع کرنے میں بھی ایک لحاظ سے قصر ہے کہ ان میں ایک نماز کے وقت دوسری نماز کو پڑھ لیا جاتا ہے، یعنی وقت کے اعتبار سے جمع کرنا بھی قصر ہے۔ (فتح الباري:749/2) نماز کی ادائیگی کے وقت سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾) (النساء 103:4) ’’بلاشبہ اہل ایمان پر نماز اس کے مقررہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔‘‘ اس لیے نماز کو بروقت ادا کرنا ہی ضروری ہے۔ لیکن بعض اسباب کی بنا پر ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ جمع بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسے شرعی اصطلاح میں دو نمازوں کو جمع کرنا کہتے ہیں۔ اس طرح جمع کرنے کی دو اقسام ہیں: ٭ جمع صوری: ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری کو اول وقت میں ادا کرنا، یعنی دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں ادا ہوں۔ ٭ جمع حقیقی: ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا کرنا جمع حقیقی کہلاتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ جمع تقدیم: پہلی نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا کرنا جیسا کہ ظہر کے وقت میں عصر اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھنا۔ ٭ جمع تاخیر: دوسری نماز کے وقت میں پہلی نماز ادا کرنا جیسا کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب ادا کرنا۔ دوران سفر دونوں طریقوں سے نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ سفر کے علاوہ بارش، سخت آندھی، ٹھنڈی ہوا، بیماری یا کسی اہم ضرورت کے پیش نظر بھی دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، لیکن بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ ترمذی میں حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعاً بھی اس قسم کی روایت مروی ہے (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:186) لیکن وہ حنش بن قیس راوی کی وجہ سے ناقابل اعتماد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ میں ظہر کے وقت عصر کو اور مزدلفہ میں عشاء کے وقت مغرب کو ادا کیا تھا۔ (سنن أبي داود، صفة حجة النبِي، حدیث:1906) (2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان کے تحت تین احادیث پیش کی ہیں: پہلی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب سفر میں عجلت ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع فرما لیتے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ سفر کو جاری رکھتے ہوئے ظہر اور عصر اسی طرح مغرب اور عشاء کو جمع کرتے۔ آخری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مطلق طور پر سفر میں دو نمازوں کو جمع کر لیتے قطع نظر اس سے کہ سفر کے لیے عجلت ہوتی یا سفر کو جاری رکھے ہوئے ہوتے یا کہیں پڑاؤ کیا ہوتا۔ امام بخارى ؒ کا رجحان یہی ہے کہ مطلق طور پر سفر میں دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ مطلق طور پر صرف میدان عرفات اور مزدلفہ میں دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ جمع حقیقی کی کوئی صورت جائز نہیں۔ مذکورہ احادیث کے پیش نظر یہ موقف محل نظر ہے۔ (3) آخر میں امام بخاری ؒ نے متابعت کا ذکر کیا ہے۔ علی بن مبارک کی متابعت کو ابو نعیم نے مستخرج میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:749/2) اور حرب بن شداد کی متابعت کو خود امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1110) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ مغرب اور عشاء میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں کے قائل ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1085.02
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1108
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1108
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1108
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سفر میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ علی بن مبارک اور حرب بن شدادنے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کرنے میں حسین المعلم کی متابعت کی ہے کہ نبی ﷺ نے نمازوں کو جمع کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے نماز قصر کے تحت نمازوں کا جمع کرنا بیان کیا ہے، کیونکہ جمع کرنے میں بھی ایک لحاظ سے قصر ہے کہ ان میں ایک نماز کے وقت دوسری نماز کو پڑھ لیا جاتا ہے، یعنی وقت کے اعتبار سے جمع کرنا بھی قصر ہے۔ (فتح الباري:749/2) نماز کی ادائیگی کے وقت سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾) (النساء 103:4) ’’بلاشبہ اہل ایمان پر نماز اس کے مقررہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔‘‘ اس لیے نماز کو بروقت ادا کرنا ہی ضروری ہے۔ لیکن بعض اسباب کی بنا پر ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ جمع بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسے شرعی اصطلاح میں دو نمازوں کو جمع کرنا کہتے ہیں۔ اس طرح جمع کرنے کی دو اقسام ہیں: ٭ جمع صوری: ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری کو اول وقت میں ادا کرنا، یعنی دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں ادا ہوں۔ ٭ جمع حقیقی: ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا کرنا جمع حقیقی کہلاتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ جمع تقدیم: پہلی نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا کرنا جیسا کہ ظہر کے وقت میں عصر اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھنا۔ ٭ جمع تاخیر: دوسری نماز کے وقت میں پہلی نماز ادا کرنا جیسا کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب ادا کرنا۔ دوران سفر دونوں طریقوں سے نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ سفر کے علاوہ بارش، سخت آندھی، ٹھنڈی ہوا، بیماری یا کسی اہم ضرورت کے پیش نظر بھی دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، لیکن بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ ترمذی میں حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعاً بھی اس قسم کی روایت مروی ہے (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:186) لیکن وہ حنش بن قیس راوی کی وجہ سے ناقابل اعتماد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ میں ظہر کے وقت عصر کو اور مزدلفہ میں عشاء کے وقت مغرب کو ادا کیا تھا۔ (سنن أبي داود، صفة حجة النبِي، حدیث:1906) (2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان کے تحت تین احادیث پیش کی ہیں: پہلی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب سفر میں عجلت ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع فرما لیتے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ سفر کو جاری رکھتے ہوئے ظہر اور عصر اسی طرح مغرب اور عشاء کو جمع کرتے۔ آخری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مطلق طور پر سفر میں دو نمازوں کو جمع کر لیتے قطع نظر اس سے کہ سفر کے لیے عجلت ہوتی یا سفر کو جاری رکھے ہوئے ہوتے یا کہیں پڑاؤ کیا ہوتا۔ امام بخارى ؒ کا رجحان یہی ہے کہ مطلق طور پر سفر میں دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ مطلق طور پر صرف میدان عرفات اور مزدلفہ میں دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ جمع حقیقی کی کوئی صورت جائز نہیں۔ مذکورہ احادیث کے پیش نظر یہ موقف محل نظر ہے۔ (3) آخر میں امام بخاری ؒ نے متابعت کا ذکر کیا ہے۔ علی بن مبارک کی متابعت کو ابو نعیم نے مستخرج میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:749/2) اور حرب بن شداد کی متابعت کو خود امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1110) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ مغرب اور عشاء میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں کے قائل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ا بن طہمان ہی نے بیان کیا کہ ان سے حسین نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے حفص بن عبید اللہ بن انس ؓ نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ اس روایت کی متابعت علی بن مبارک اور حرب نے یحییٰ سے کی ہے۔ یحییٰ حفص سے اور حفص انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ملا کر پڑھی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ جمع کا مسئلہ قصر کے ابواب میں اس لیے لائے کہ جمع بھی گویا ایک طرح کا قصر ہی ہے۔ سفر میں ظہر عصر اور مغرب عشاءکا جمع کرنا اہل حدیث اور امام احمد ؒ اور امام شافعی ؒ اور ثوری ؒ اور اسحاق سب کے نزدیک جائز ہے، خواہ جمع تقدیم کرے یعنی ظہر کے وقت عصر اور مغرب کے وقت عشاء پڑھ لے، خواہ جمع تاخیر کرے، یعنی عصر کے وقت ظہر اور عشاء کے وقت مغرب بھی پڑھ لے۔ اس بارے میں مزید تفصیل مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہو سکتی ہے۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ، جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَإِنْ يَرْتَحِلْ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ، أَخَّرَ الظُّهْرَ، حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعَصْرِ، وَفِي الْمَغْرِبِ مِثْلُ ذَلِكَ، إِنْ غَابَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ، جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، وَإِنْ يَرْتَحِلْ قَبْلَ أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ، أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعِشَاءِ ثُمَّ جَمَعَ بَيْنَهُمَا۔ رواہ أبوداود والترمذي وقال ھذا حدیث حسن غریب۔یعنی معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں آنحضرت ﷺ اگر کسی دن کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے ( جسے جمع تقدیم کہا جاتا ہے ) اور اگر کبھی آپ کا سفر سورج ڈھلنے سے پہلے ہی شروع ہوجاتا تو ظہر اور عصر ملاکر پڑھتے ( جسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے ) مغرب میں بھی آپ کا یہی عمل تھا اگر کوچ کرتے وقت سورج غروب ہو چکا ہوتا تو آپ مغرب اور عشاءملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے قبل ہی سفر شروع ہو جاتا تو پھر مغرب کو مؤخر کر کے عشاءکے ساتھ ملاکر ادا کرتے۔ مسلم شریف میں بھی یہ روایت مختصر مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھ لیا کرتے تھے۔ ایک اور حدیث حضرت انس ؓ سے مروی ہے جس میں مطلق سفر کاذکر ہے اور ساتھ ہی حضرت انس ؓ یہ بھی بیان فرماتے ہیں: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ، أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ۔ الحدیث۔ یعنی سفر میں آنحضرت ﷺ کا یہی معمو ل تھا کہ اگر سفرسورج ڈھلنے سے قبل شروع ہوتا توآپ ظہر کو عصر میں ملالیا کرتے تھے اور اگر سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کرتے تو ظہر کے ساتھ عصر ملا کر سفر شروع کرتے تھے۔ مسلم شریف میں حضرت ابن عباس ؓ سے بھی ایسا ہی مروی ہے اس میں مزید یہ ہے کہ قال سعید فقلت لابن عباس ما حمله علی ذلك قال أراد أن لایحرج أمته۔(رواہ مسلم ص:246)یعنی سعید نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا آپ ﷺ نے یہ اس لیے کیا تاکہ امت تنگی میں نہ پڑ جائے۔ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت علی اور ابن عمر اور انس اور عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ اور ابن عباس اور اسامہ بن زید اور جابر ؓ سے بھی مرویات ہیں اور امام شافعی اوراحمد اور اسحاق ؒ بھی یہی کہتے ہیں کہ سفر میں دو نمازوں کا جمع کرنا خواہ جمع تقدیم ہو یا تاخیر بلاخوف وخطر جائز ہے۔ علامہ نووی ؒ نے شرح مسلم میں امام شافعی ؒ اور اکثر لوگوں کا قول نقل کیا ہے کہ سفر طویل میں جو48 میل ہاشمی پر بولا جاتا ہے، جمع تقدیم اور جمع تاخیر ہر دو طورپر جمع کرنا جائز ہے اور چھوٹے سفر کے بارے میں امام شافعی ؒ کے دو قول ہیں اور ان میں بہت صحیح قول یہ ہے کہ جس سفر میں نماز کا قصر کرنا جائز نہیں، اس میں جمع بھی جائز نہیں ہے علامہ شوکانی دررالبھیۃ میں فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے جمع تقدیم اورجمع تاخیر ہر دو طور پر جمع کرنا جائز ہے۔ خواہ اذان اور اقامت سے ظہر میں عصر کو ملائے یا عصر کے ساتھ ظہر کو ملائے۔ اسی طرح مغرب کے ساتھ عشاء پڑھے یا عشاء کے ساتھ مغرب ملائے۔ حنفیہ کے ہاں سفر میں جمع کر کے پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ والی روایت ہے جسے بخاری اور مسلم اور ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے کہ میں نے مزدلفہ کے سوا کہیں نہیں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے دو نمازیں ملاکر ادا کی ہوں۔ اس کا جواب صاحب مسک الختام نے یوں دیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ بیان ہمارے مقصود کے لیے ہرگز مضر نہیں ہے کہ یہی عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے اس بیان کے خلاف بیا ن دے رہے ہیں جیسا کہ محدث سلام اللہ نے محلّی شرح مؤطا امام مالک میں مسند ابی سے نقل کیا ہے کہ ابو قیس ازدی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ سفرمیں دو نمازوں کو جمع فرمایا کرتے تھے۔ اب ان کے پہلے بیان میں نفی ہے اور اس میں اثبات ہے اور قاعدہ مقررہ کی رو سے نفی پر اثبات مقدم ہوتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ ان کا پہلا بیان محض نسیان کی وجہ سے ہے۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾ ( النساء: 103 ) یعنی نماز مومنوں پر وقت مقررہ میں فرض ہے۔ اس کا جواب یہ کہ آنحضرت ﷺ قرآن مجید کے مفسراول ہیں۔ اور آپ کے عمل سے نمازمیں جمع ثابت ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ جمع بھی وقت موقت ہی میں داخل ہے ورنہ آیت کو اگر مطلق مانا جائے تو پھر مزدلفہ میں بھی جمع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ حالانکہ وہاں کے جمع پر حنفی، شافعی اور اہل حدیث سب کا اتفاق ہے۔ بہر حال امر ثابت یہی ہے کہ سفر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر ہر دو صورتوں میں جائز ہے۔ وقد روی مسلم عن جابر أَنهُ صلی اللہ علیه وسلم جمعَ بینَ الظُھرِ والعصرِ بعرفةَ فی وقتِ الظھرِ فلو لم یرد من فعلهِ إلا ھذا لکان أدل دلیل علی جواز جمع التقدیم في السفرِ۔(قسطلاني ج:2ص:249) یعنی امام مسلم نے جابرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو عرفہ میں ظہر کے وقت میں جمع کر کے ادا فرمایا۔ پس اگرآنحضرت ﷺ سے صرف اسی موقع پر صحیح روایت سے جمع ثابت ہوا۔ یہی بہت بڑی دلیل ہے کہ جمع تقدیم سفر میں جائز ہے۔ علامہ قسطلانی ؒ نے امام زہری کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے سالم سے پوچھا کہ سفر میں ظہر اور عصر کا جمع کرنا کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ بلا شک جائز ہے، تم دیکھتے نہیں کہ عرفات میں لوگ ظہر اور عصر ملا کر ادا کرتے ہیں۔ پھر علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں کہ جمع تقدیم کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اول والی نماز پڑھی جائے مثلا ظہر وعصرکو ملانا ہے توپہلے ظہر ادا کی جائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ نیت بھی پہلے ظہر ادا کرنے کی جائے اور یہ بھی ضرور ی ہے کہ ان ہر دو نمازوں کو پے در پے پڑھا جائے درمیان میں کسی سنت راتبہ وغیرہ سے فصل نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ نے جب نمرہ میں ظہر اور عصر کو جمع فرمایا تو والی بینھما وترك الرواتب وأقام الصلوة بینھما ورواہ الشیخان۔آپ نے ان کو ملا کر پڑھا درمیان میں کوئی سنت نماز نہیں پڑھی اور درمیان میں تکبیر کہی۔ اسے بخاری ومسلم نے بھی روایت کیا ہے (حوالہ مذکور) ا س بارے میں علامہ شوکانی ؒ نے یوں باب منعقد فرمایا ہے ''باب الجمع بأذان وإقامتین من غیر تطوع بینھما''یعنی نماز کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع کرنا اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہ ادا کرنا۔ پھر آپ اس بارے میں بطور دلیل حدیث ذیل کو لائے ہیں۔ عن ابن عمر«أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ، لَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا، وَلَا عَلَى إِثْرِ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا» (رواہ البخاري والنسائي)یعنی حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ مزدلفہ میں آنحضرت ﷺ نے مغرب اور عشاءکو الگ الگ اقامت کے ساتھ جمع فرمایا اور نہ آپ نے ان کے درمیان کوئی نفل نماز ادا کی اور نہ ان کے آگے پیچھے۔ جابر کی روایت سے مسلم اوراحمد اور نسائی میں اتنا اور زیادہ ہے: ثم اضطجع حتی طلع الفجر۔پھر آپ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر ہوگئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Allah's Messenger (ﷺ) used to offer these two prayers together on journeys i.e. the Maghrib and the `Isha'.