باب: جب مغرب اور عشاء ملا کر پڑھے تو کیا ان کے لیے اذان و تکبیر کہی جائے گی؟
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: Should the Adhan and Iqama be pronounced when the Maghrib and Isha prayers are offered together)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1110.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر ان دونوں نمازوں، یعنی مغرب اور عشاء کو جمع کرتے تھے۔
تشریح:
1۔علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں: لفظ صلاۃ کے اطلاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان نمازوں کو ان کے ارکان، شروط اور سنن وغیرہ سمیت پڑھتے تھے اور اذان و اقامت کی حیثیت نماز کے لیے سنت کی ہے، لہٰذا اس کے لیے اذان اور اقامت کا بھی اہتمام کرتے، مطلق شے سے مراد اس کا فرد کامل ہوتا ہے۔ (فتح الباري:750/2) (2) ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کے ذریعے سے حضرت انس ؓ سے مروی حدیث کی تفسیر فرمائی ہے، کیونکہ حدیث انس ؓ میں اذان یا اقامت کا ذکر نہیں ہے، جبکہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث میں مغرب اور عشاء کے لیے اقامت کہنے کی صراحت ہے، چنانچہ سنن دارقطنی کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ دوران سفر اذان نہیں دیتے تھے بلکہ اقامت کہنے کے بعد دونوں نمازوں کو ملا کر ادا کرتے تھے، یعنی ہر نماز کے لیے الگ اقامت کہتے تھے۔ (فتح الباري:750/2) (3) اس حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ نماز مغرب کو کسی حد تک مؤخر کیا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ غروب آفتاب کے بعد سرخی غائب ہونے تک اسے مؤخر کرتے، پھر پڑاؤ کر کے مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:3000) حضرت جابر ؓ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں ایک اذان اور دو دفعہ اقامت کے ساتھ نماز مغرب اور عشاء کو جمع کیا تھا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2950(1218)) راجح یہی ہے کہ ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت ہو، البتہ اذان ایک ہی کافی ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1087
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1110
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1110
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1110
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر ان دونوں نمازوں، یعنی مغرب اور عشاء کو جمع کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں: لفظ صلاۃ کے اطلاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان نمازوں کو ان کے ارکان، شروط اور سنن وغیرہ سمیت پڑھتے تھے اور اذان و اقامت کی حیثیت نماز کے لیے سنت کی ہے، لہٰذا اس کے لیے اذان اور اقامت کا بھی اہتمام کرتے، مطلق شے سے مراد اس کا فرد کامل ہوتا ہے۔ (فتح الباري:750/2) (2) ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کے ذریعے سے حضرت انس ؓ سے مروی حدیث کی تفسیر فرمائی ہے، کیونکہ حدیث انس ؓ میں اذان یا اقامت کا ذکر نہیں ہے، جبکہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث میں مغرب اور عشاء کے لیے اقامت کہنے کی صراحت ہے، چنانچہ سنن دارقطنی کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ دوران سفر اذان نہیں دیتے تھے بلکہ اقامت کہنے کے بعد دونوں نمازوں کو ملا کر ادا کرتے تھے، یعنی ہر نماز کے لیے الگ اقامت کہتے تھے۔ (فتح الباري:750/2) (3) اس حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ نماز مغرب کو کسی حد تک مؤخر کیا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ غروب آفتاب کے بعد سرخی غائب ہونے تک اسے مؤخر کرتے، پھر پڑاؤ کر کے مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:3000) حضرت جابر ؓ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں ایک اذان اور دو دفعہ اقامت کے ساتھ نماز مغرب اور عشاء کو جمع کیا تھا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2950(1218)) راجح یہی ہے کہ ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت ہو، البتہ اذان ایک ہی کافی ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الصمد بن عبد الوارث نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہم سے حرب بن سداد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حفص بن عبید اللہ بن انس نے بیان کیا کہ انس ؓ نے ان سے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ان دو نمازوں یعنی مغرب اور عشاء کو سفر میں ایک ساتھ ملا کر پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to offer these two prayers together on journeys i.e. the Maghrib and the 'Isha'. ________