باب: مسافر جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرے تو ظہر کی نماز میں عصر کا وقت آنے تک دیر کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: To delay the Salat-uz-Zuhr till the Asr prayers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے۔
1111.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب زوال آفتاب سے پہلے سفر کا آغاز کرتے تو نماز ظہر کو عصر تک مؤخر کرتے، پھر ظہر اور عصر دونوں کو ملا کر پڑھتے اور جب سورج ڈھلنے کے وقت سفر شروع کرتے تو نماز ظہر پڑھ کر اپنے سفر پر روانہ ہوتے۔
تشریح:
ایک روایت میں ہے کہ نماز ظہر کو اس حد تک مؤخر کرتے کہ عصر کا اول وقت شروع ہو جاتا، پھر پڑاؤ کرتے اور نماز ظہر اور عصر کو ملا کر پڑھتے۔ ایک روایت میں ہے کہ دوران سفر نماز مغرب کو بھی مؤخر کرتے، پھر غروب شفق کے بعد مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھتے، بہرحال امام بخاری ظہر اور عصر میں جمع تاخیر کے قائل ہیں۔ جمع تقدیم کے متعلق امام بخاری ؒ کا موقف واضح نہیں ہے۔ (فتح الباري:752/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1088
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1111
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1111
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1111
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جمع تاخیر اس وقت جائز ہے جب کوئی ظہر کے وقت سے پہلے پہلے اپنے سفر کا آغاز کر دے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1107) اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے ظہر اور عصر کو جمع کرتے تھے۔ اس سے مراد جمع تاخیر ہے جیسا کہ یحییٰ بن عبدالحمید کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباری:2/752)
اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب زوال آفتاب سے پہلے سفر کا آغاز کرتے تو نماز ظہر کو عصر تک مؤخر کرتے، پھر ظہر اور عصر دونوں کو ملا کر پڑھتے اور جب سورج ڈھلنے کے وقت سفر شروع کرتے تو نماز ظہر پڑھ کر اپنے سفر پر روانہ ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ نماز ظہر کو اس حد تک مؤخر کرتے کہ عصر کا اول وقت شروع ہو جاتا، پھر پڑاؤ کرتے اور نماز ظہر اور عصر کو ملا کر پڑھتے۔ ایک روایت میں ہے کہ دوران سفر نماز مغرب کو بھی مؤخر کرتے، پھر غروب شفق کے بعد مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھتے، بہرحال امام بخاری ظہر اور عصر میں جمع تاخیر کے قائل ہیں۔ جمع تقدیم کے متعلق امام بخاری ؒ کا موقف واضح نہیں ہے۔ (فتح الباري:752/2)
ترجمۃ الباب:
اس کے متعلق حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے جسے انہوں نے نبی ﷺسے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسان واسطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کی نماز عصر تک نہ پڑھتے پھر ظہر اور عصر ایک ساتھ پڑھتے اور اگر سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Whenever the Prophet (ﷺ) started a journey before noon, he used to delay the Zuhr prayer till the time of 'Asr and then offer them together; and if the sun declined (at noon) he used to offer the Zuhr prayer and then ride (for the journey). ________