Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: To offer Salat (prayers) while sitting)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1113.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں بوجہ علالت بیٹھ کر نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز شروع کی تو آپ نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اس وقت رکوع سے سر اٹھاؤ۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1090
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1113
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1113
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1113
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کو مطلق رکھا ہے، یعنی عذر بلا عذر کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں دو احتمال ہیں: ٭ عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے متعلق بیان کرنا مقصود ہے، خواہ وہ امام ہو یا مقتدی یا اکیلا۔ ٭ بغیر عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا حکم۔ اس کے تحت جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کا حکم بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے ابواب تقصیر کے ساتھ مناسبت بھی ظاہر ہے کہ سفر اور مرض دونوں اسباب تخفیف ہیں اور بسا اوقات دوران سفر بھی نمازی کو ایسے عوارض پیش آ سکتے ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اس لیے مطلق رکھا ہو تاکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا جواز ثابت کیا جائے، خواہ عذر ہو یا نہ ہو، لیکن اس بات پر اجماع ہے کہ تندرست آدمی کو فرض نماز بیٹھ کر ادا کرنا جائز نہیں۔ (فتح الباری:2/754)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں بوجہ علالت بیٹھ کر نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز شروع کی تو آپ نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اس وقت رکوع سے سر اٹھاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک ؓ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ عروہ نے، ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ بیمار تھے اس لیے آپ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی، بعض لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے۔ لیکن آپ نے انہیں اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اس لیے جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھا ئے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) prayed in his house while sitting during his illness and the people prayed behind him standing and he pointed to them to sit down. When he had finished the prayer, he said, "The Imam is to be followed and so when he bows you should bow; and when he lifts his head you should also do the same." ________