Sahi-Bukhari:
Shortening the Prayers (At-Taqseer)
(Chapter: To offer Salat (prayers) while sitting)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1115.
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، جو مرض بواسیر میں مبتلا تھے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو افضل ہے اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے آدھا ثواب ملے گا اور جو لیٹ کر نماز پڑھے گا اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے نصف ثواب ملے گا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ حضرت عمران بن حصین ؓ نے فرض نماز بیٹھ کر پڑھنے والے کے متعلق سوال کیا تھا یا نفل نماز۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اگر کوئی شخص فرض نماز مشقت کے باوجود کھڑے ہو کر پڑھتا ہے تو یہ افضل اور اولیٰ ہے، تاہم جو شخص ایسے حالات میں بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اسے صحیح اور تندرست کا ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جو شخص بیمار ہو جائے یا حالت سفر میں ہو تو ایسے حالات میں جو نیک عمل کرے گا اسے تندرست و مقیم کے برابر ثواب دیا جائے گا۔‘‘(فتح الباري:755/2) اگر نفل نماز بیٹھ کر ادا کرتا ہے، حالانکہ وہ کھڑا ہو کر ادا کرنے کی ہمت رکھتا ہے تو ایسے شخص کو نصف اجر ملے گا اور بے بسی اور عاجزی کی وجہ سے بیٹھ کر نفل پڑھتا ہے تو اسے پورا ثواب ملے گا، البتہ فرض نماز اگر کھڑے ہو کر ادا کرنے کی ہمت کے باوجود بیٹھ کر ادا کی جائے تو ایسا کرنا صحیح نہیں۔ (عمدةالقاري:433/2) (2) بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے عموم سے رسول اللہ ﷺ مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ کی خصوصیت ہے کہ اگر آپ بیٹھ کر بھی نفل ادا کریں تو بھی اللہ کے ہاں آپ کو پورا اجر دیا جاتا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں: مجھے ارشاد نبوی معلوم ہوا: بیٹھ کر نماز والے کو نصف اجر ملتا ہے۔ میں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو مارے حیرت کے اپنے ہاتھ سر پر رکھ لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اپنی حیرت کا سبب بیان کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے جیسا نہیں ہوں۔(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1715(735)) (3) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر دیار عرب کے مشہور عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق کا خلاصہ پیش کر دیا جائے، وہ فرماتے ہیں: مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ بحالت قیام نماز ادا کرے اگرچہ جھکاؤ کے ساتھ کھڑا ہو یا کسی دیوار، ستون یا لاٹھی کا سہارا لے کر کھڑا ہو۔ اگر کسی صورت میں کھڑا ہونے کی ہمت نہیں تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے لیکن اس صورت میں بہتر ہے قیام اور رکوع کے موقع پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے اور سجدہ کے وقت دو زانو بیٹھے۔ (صلاة المریض، ص:8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1092
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1115
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1115
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1115
تمہید کتاب
ہجرت کے چوتھے سال نماز قصر کی اجازت نازل ہوئی۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾) "اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز کو قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جب تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں پریشانی میں مبتلا کر دیں گے کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔" (النساء101:4)قصر نماز کی اجازت ہر سفر کے لیے ہے، خواہ امن کے حالات ہوں یا دشمن کا اندیشہ۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال سے متعلق ہے کیونکہ اس وقت پورا عرب مسلمانوں کے لیے دار الحرب بنا ہوا تھا۔عربی زبان میں اس نماز کے لیے قصر، تقصیر اور اقصار تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں، البتہ پہلا لفظ زیادہ مشہور ہے۔ اس سے مراد بحالت سفر چار رکعت والی نماز میں تخفیف کر کے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ نماز قصر کے متعلق سفر کی تاثیر میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ پانچ مواضع میں علمائے امت کا نکتۂ نظر مختلف ہے: ٭ حکم قصر کی حیثیت کیا ہے؟ ٭ کتنی مسافت پر قصر ہے؟ ٭ کس قسم کے سفر میں قصر کی اجازت ہے؟ ٭ قصر کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ٭ پڑاؤ کی صورت میں کتنے دنوں تک قصر نماز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ایک حقیقت کو بیان کرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتدا میں سفر و حضر میں دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر نماز سفر کو جوں کا توں رکھتے ہوئے حضر کی نماز میں اضافہ کر کے اسے مکمل کر دیا گیا۔ (صحیح البخاری،التقصیر،حدیث:1090) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1576(687)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے دوران سفر میں نماز قصر پڑھنے پر اکتفا کریں۔ ہمارے نزدیک یہی اولیٰ، بہتر اور افضل ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کو مطلق رکھا ہے، یعنی عذر بلا عذر کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں دو احتمال ہیں: ٭ عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے متعلق بیان کرنا مقصود ہے، خواہ وہ امام ہو یا مقتدی یا اکیلا۔ ٭ بغیر عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا حکم۔ اس کے تحت جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کا حکم بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے ابواب تقصیر کے ساتھ مناسبت بھی ظاہر ہے کہ سفر اور مرض دونوں اسباب تخفیف ہیں اور بسا اوقات دوران سفر بھی نمازی کو ایسے عوارض پیش آ سکتے ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اس لیے مطلق رکھا ہو تاکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا جواز ثابت کیا جائے، خواہ عذر ہو یا نہ ہو، لیکن اس بات پر اجماع ہے کہ تندرست آدمی کو فرض نماز بیٹھ کر ادا کرنا جائز نہیں۔ (فتح الباری:2/754)
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، جو مرض بواسیر میں مبتلا تھے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو افضل ہے اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے آدھا ثواب ملے گا اور جو لیٹ کر نماز پڑھے گا اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے نصف ثواب ملے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ حضرت عمران بن حصین ؓ نے فرض نماز بیٹھ کر پڑھنے والے کے متعلق سوال کیا تھا یا نفل نماز۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اگر کوئی شخص فرض نماز مشقت کے باوجود کھڑے ہو کر پڑھتا ہے تو یہ افضل اور اولیٰ ہے، تاہم جو شخص ایسے حالات میں بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اسے صحیح اور تندرست کا ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جو شخص بیمار ہو جائے یا حالت سفر میں ہو تو ایسے حالات میں جو نیک عمل کرے گا اسے تندرست و مقیم کے برابر ثواب دیا جائے گا۔‘‘(فتح الباري:755/2) اگر نفل نماز بیٹھ کر ادا کرتا ہے، حالانکہ وہ کھڑا ہو کر ادا کرنے کی ہمت رکھتا ہے تو ایسے شخص کو نصف اجر ملے گا اور بے بسی اور عاجزی کی وجہ سے بیٹھ کر نفل پڑھتا ہے تو اسے پورا ثواب ملے گا، البتہ فرض نماز اگر کھڑے ہو کر ادا کرنے کی ہمت کے باوجود بیٹھ کر ادا کی جائے تو ایسا کرنا صحیح نہیں۔ (عمدةالقاري:433/2) (2) بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے عموم سے رسول اللہ ﷺ مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ کی خصوصیت ہے کہ اگر آپ بیٹھ کر بھی نفل ادا کریں تو بھی اللہ کے ہاں آپ کو پورا اجر دیا جاتا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں: مجھے ارشاد نبوی معلوم ہوا: بیٹھ کر نماز والے کو نصف اجر ملتا ہے۔ میں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو مارے حیرت کے اپنے ہاتھ سر پر رکھ لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اپنی حیرت کا سبب بیان کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے جیسا نہیں ہوں۔(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1715(735)) (3) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر دیار عرب کے مشہور عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق کا خلاصہ پیش کر دیا جائے، وہ فرماتے ہیں: مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ بحالت قیام نماز ادا کرے اگرچہ جھکاؤ کے ساتھ کھڑا ہو یا کسی دیوار، ستون یا لاٹھی کا سہارا لے کر کھڑا ہو۔ اگر کسی صورت میں کھڑا ہونے کی ہمت نہیں تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے لیکن اس صورت میں بہتر ہے قیام اور رکوع کے موقع پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے اور سجدہ کے وقت دو زانو بیٹھے۔ (صلاة المریض، ص:8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں حسین نے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن بریدہ نے، انہیں عمران بن حصین ؓ نے کہ آپ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا (دوسری سند) اور ہمیں اسحاق بن منصور نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبد الصمد نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے باپ عبدالوارث سے سنا، کہا کہ ہم سے حسین نے بیان کیا اور ان سے ابن بریدہ نے کہا کہ مجھ سے عمران بن حصین ؓ نے بیان کیا، وہ بواسیر کے مریض تھے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کسی آدمی کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا کہ آپ نے فرمایا کہ افضل یہی ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے اور لیٹے لیٹے پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ایک اصول بتایا گیا ہے کہ کھڑے ہو کر بیٹھ کر اور لیٹ کر نمازوں کے ثواب میں کیا تفاوت ہے۔ رہی صورت مسئلہ کہ لیٹ کر نماز جائز بھی ہے یا نہیں اس سے کوئی بحث نہیں کی گئی ہے اس لیے اس حدیث پر یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ جب لیٹ کر نماز جائز ہی نہیں تو حدیث میں اس پرثواب کا کیسے ذکر ہو رہا ہے؟ مصنف ؒ نے بھی ان احادیث پر جو عنوان لگایا ہے اس کا مقصد اسی اصول کی وضاحت ہے۔ اس کی تفصیلات دوسرے مواقع پر شارع سے خود ثابت ہیں۔ اس لیے عملی حدود میں جواز اور عدم جواز کا فیصلہ انہیں تفصیلات کے پیش نظر ہوگا۔ اس باب کی پہلی دو احادیث پر بحث پہلے گزر چکی ہے کہ آنحضور ﷺ عذر کی وجہ سے مسجد میں نہیں جا سکتے تھے اس لیے آپ نے فرض اپنی قیام گاہ پر ادا کئے۔ صحابہ ؓ نماز سے فارغ ہوکر عیادت کے لیے حاضر ہوئے اور جب آپ کو نماز پڑھتے دیکھا تو آپ کے پیچھے انہوں نے بھی اقتداءکی نیت باندھ لی۔ صحابہ ؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے آپ نے انہیں منع کیا کہ نفل نماز میں امام کی حالت کے اس طرح خلاف مقتدیوں کے لیے کھڑا ہونا مناسب نہیں ہے۔ (تفہیم البخاری، پ:5ص:13) جو مریض بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکے وہ لیٹ کر پڑھ سکتا ہے۔ جس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ امام کے ساتھ مقتدیوں کا بیٹھ کر نماز پڑھنا بعد میں منسوخ ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Imran bin Husain (RA): (who had piles) I asked Allah's Apostle (ﷺ) about the praying of a man while sitting. He said, "If he prays while standing it is better and he who prays while sitting gets half the reward of that who prays standing; and whoever prays while Lying gets half the reward of that who prays while sitting." ________