باب: نبی کریمﷺ کی رات کی نماز کی کیا کیفیت تھی؟ اور رات کی نماز کیوں کر پڑھنی چاہیے؟
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: How was the Salat of the Prophet (pbuh) and how many Rak'a he used to offer at night?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1137.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نماز شب کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کیسے ادا کی جائے؟ آپ نے فرمایا: ’’نمازِ شب دو دو رکعتیں ہے، جب صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک وتر پڑھ لو۔‘‘
تشریح:
اس حدیث میں نماز شب پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ اسے دو دو رکعت کر کے پڑھا جائے اور آخر میں ایک وتر ادا کیا جائے۔ امت کے حق میں یہی افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سائل کے جواب میں یہ ہدایت جاری فرمائی ہے، البتہ آپ نے نماز شب کو فصل اور وصل دونوں طریقوں سے ادا فرمایا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز شب چار رکعت پڑھتے۔ اس کے خوبصورت اور طویل ہونے کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر چار پڑھتے جو بہت خوبصورت اور لمبی ہوتیں۔ اس کے بعد تین رکعت پڑھتے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1147)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1113
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1137
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1137
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1137
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نماز شب کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کیسے ادا کی جائے؟ آپ نے فرمایا: ’’نمازِ شب دو دو رکعتیں ہے، جب صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک وتر پڑھ لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں نماز شب پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ اسے دو دو رکعت کر کے پڑھا جائے اور آخر میں ایک وتر ادا کیا جائے۔ امت کے حق میں یہی افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سائل کے جواب میں یہ ہدایت جاری فرمائی ہے، البتہ آپ نے نماز شب کو فصل اور وصل دونوں طریقوں سے ادا فرمایا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز شب چار رکعت پڑھتے۔ اس کے خوبصورت اور طویل ہونے کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر چار پڑھتے جو بہت خوبصورت اور لمبی ہوتیں۔ اس کے بعد تین رکعت پڑھتے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1147)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ! را ت کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا دو دو رکعت اور جب طلوع صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ کر اپنی ساری نماز کو طاق بنا لے۔
حدیث حاشیہ:
رات کی نماز کی کیفیت بتلائی کہ وہ دو دو رکعت پڑھی جائے۔ اس طرح آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر اسے طاق بنا لیا جائے۔ اسی بنا پر رات کی نماز کو جس کا نام غیر رمضان میں تہجد ہے اور رمضان میں تراویح، گیارہ رکعت پڑھنا مسنون ہے جس میں آٹھ رکعتیں دو دو رکعت کے سلام سے پڑھی جائیں گی، پھرآخر میں تین رکعات وتر ہوں گے یا دس رکعات ادا کر کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا جائے اور اگر فجر قریب ہو تو پھر جس قدر بھی رکعتیں پڑھی جا چکی ہیں، ان پر اکتفاکرتے ہوئے ایک رکعت وتر پڑھ کر ان کو طاق بنا لیا جائے۔ اس حدیث سے صاف ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ مگر حنفی حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔ اس حدیث کے ذیل علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: وھو حجة للشافعیة علی جواز الإیتار برکعة واحدة قال النووي وھو مذھب الجمھور وقال أبو حنیفة لا یصح بواحدة ولا تکون الرکعة الواحدة صلوة قط والأحادیث الصحیحة ترد علیه۔ یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر کا صحیح ہونا ثابت ہو رہاہے اورجمہور کا یہی مذہب ہے۔ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ایک رکعت کوئی نماز نہیں ہی ہے حالانکہ احادیث صحیحہ ان کے اس خیال کی تردید کررہی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar : A man said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! How is the prayer of the night?" He said, "Two Rakat followed by two Rakat and so on, and when you apprehend the approaching dawn, offer one Raka as Witr." ________