باب: نبی کریم ﷺ کا رات کو قیام کرنے اور سونے کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: The waking up of the Prophet (pbuh) from his sleep for the night prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے اسی باب میں (سورۃ مزمل میں) فرمایا اے کپڑا لپیٹنے والے! رات کو (نماز میں) کھڑا رہ آدھی رات یا اس سے کچھ کم «سبحا طويلا» تک۔ اور فرمایا کہ اللہ پاک جانتا ہے کہ تم رات کی اتنی عبادت کو نباہ نہ سکو گے تو تم کو معاف کر دیا۔ «واستغفروا الله ان الله غفور رحيم» تک۔ اور عبداللہ بن عباس ؓنے کہا قرآن میں جو لفظ «ناشئة الليل» ہے تو «نشأ» کے معنی حبشی زبان میں کھڑا ہوا اور «وطاء» کے معنی موافق ہونا یعنی رات کا قرآن کان اور آنکھ اور دل کو ملا کر پڑھا جاتا ہے۔
1141.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کسی مہینے میں روزہ نہ رکھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس مہینے میں آپ بالکل روزہ نہیں رکھیں گے اور جب روزے رکھتے تو اتنے مسلسل کہ ہم سوچتے کہ آپ اس میں بالکل ناغہ نہیں کریں گے۔ اور رات کے وقت نماز تو ایسے پڑھتے تھے کہ تم جب چاہتے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جب چاہتے آپ کو محوِ خواب دیکھ لیتے۔ سلیمان بن بلال اور ابوخالد احمر نے حمید سے روایت کرنے میں (محمد بن جعفر کی) متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) اس روایت سے امام بخاری ؒ نے رسول اللہ ﷺ کے حق میں نماز تہجد کا عدم وجوب ثابت کیا ہے، کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کبھی کبھی پوری رات سو کر گزار دیتے تھے۔ اگر قیام اللیل واجب ہوتا تو آپ اس کی پابندی ضرور کرتے۔ (فتح الباري:29/3) (2) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا رات نو نفل پڑھنا محوِ استراحت ہونا رات کے مختلف اوقات میں تھا۔ جو شخص آپ کو جس حالت میں دیکھنا چاہتا وہ دیکھ لیا کرتا تھا۔ یہ حضرت انس ؓ کا اپنا مشاہدہ ہے جو حضرت عائشہ ؓ کے بیان کے خلاف نہیں کہ آپ مرغ کی آواز سن کر بیدار ہو جاتے تھے، کیونکہ انہوں نے اپنے چشم دید حالات بیان کیے ہیں اور آپ رات کی نماز عموماً گھر میں پڑھتے تھے جبکہ حضرت انس ؓ کی حدیث اس کے علاوہ پر محمول ہے۔ دونوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنے اپنے مشاہدات کو بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:31/3) (3) ابو خالد احمر کی اس متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1973) سلیمان کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حمید راوی نے حضرت انس ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے روزے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1972)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1117
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1141
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1141
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1141
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیام اللیل فرض نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ بعض اوقات تمام رات سو کر نہ گزارتے۔ صحیح مسلم میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مزمل کے آغاز کے ذریعے سے تہجد کو فرض قرار دیا تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سال بھر اس کا اہتمام کیا۔ اس کے بعد سورت کا اختتام نازل ہوا تو قیام اللیل کو نفل قرار دے دیا گیا۔ (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،حدیث:1789(746)) (2) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیری روایت کو امام عبد بن حمید نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ دراصل اس لفظ کو داؤ کے کسرہ سے بھی پڑھا گیا ہے اور مذکورہ تفسیر اسی قراءت کے مطابق ہے، یعنی رات کے سکون اور خاموشی میں قرآن کی تلاوت کرنا دل، زبان اور کان، نیز آنکھ سب اس کی موافقت کرتے ہیں اور اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ دن کے وقت چونکہ شور ہوتا ہے، اس لیے آنکھ کسی طرف ہوتی ہے، کان کہیں لگا ہوتا ہے اور دل کسی اور جانب ہوتا ہے۔ اگر اس لفظ کو واؤ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی زیر کرنا اور دبانا ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تفسیری روایت کے پیش نظر سورۂ توبہ کے ایک لفظ کے معنی بھی بیان کر دیے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے اسی باب میں (سورۃ مزمل میں) فرمایا اے کپڑا لپیٹنے والے! رات کو (نماز میں) کھڑا رہ آدھی رات یا اس سے کچھ کم «سبحا طويلا» تک۔ اور فرمایا کہ اللہ پاک جانتا ہے کہ تم رات کی اتنی عبادت کو نباہ نہ سکو گے تو تم کو معاف کر دیا۔ «واستغفروا الله ان الله غفور رحيم» تک۔ اور عبداللہ بن عباس ؓنے کہا قرآن میں جو لفظ «ناشئة الليل» ہے تو «نشأ» کے معنی حبشی زبان میں کھڑا ہوا اور «وطاء» کے معنی موافق ہونا یعنی رات کا قرآن کان اور آنکھ اور دل کو ملا کر پڑھا جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کسی مہینے میں روزہ نہ رکھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس مہینے میں آپ بالکل روزہ نہیں رکھیں گے اور جب روزے رکھتے تو اتنے مسلسل کہ ہم سوچتے کہ آپ اس میں بالکل ناغہ نہیں کریں گے۔ اور رات کے وقت نماز تو ایسے پڑھتے تھے کہ تم جب چاہتے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جب چاہتے آپ کو محوِ خواب دیکھ لیتے۔ سلیمان بن بلال اور ابوخالد احمر نے حمید سے روایت کرنے میں (محمد بن جعفر کی) متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت سے امام بخاری ؒ نے رسول اللہ ﷺ کے حق میں نماز تہجد کا عدم وجوب ثابت کیا ہے، کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کبھی کبھی پوری رات سو کر گزار دیتے تھے۔ اگر قیام اللیل واجب ہوتا تو آپ اس کی پابندی ضرور کرتے۔ (فتح الباري:29/3) (2) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا رات نو نفل پڑھنا محوِ استراحت ہونا رات کے مختلف اوقات میں تھا۔ جو شخص آپ کو جس حالت میں دیکھنا چاہتا وہ دیکھ لیا کرتا تھا۔ یہ حضرت انس ؓ کا اپنا مشاہدہ ہے جو حضرت عائشہ ؓ کے بیان کے خلاف نہیں کہ آپ مرغ کی آواز سن کر بیدار ہو جاتے تھے، کیونکہ انہوں نے اپنے چشم دید حالات بیان کیے ہیں اور آپ رات کی نماز عموماً گھر میں پڑھتے تھے جبکہ حضرت انس ؓ کی حدیث اس کے علاوہ پر محمول ہے۔ دونوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنے اپنے مشاہدات کو بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:31/3) (3) ابو خالد احمر کی اس متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1973) سلیمان کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حمید راوی نے حضرت انس ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے روزے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1972)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ... سَبْحًا طَوِيلًا) "اے کپڑا اوڑھنے والے! رات کا کچھ حصہ چھوڑ کر باقی میں قیام کیجیے۔ رات کا نصف حصہ یا اس سے کچھ کم کر لیجیے یا اس سے کچھ زیادہ کیجیے۔ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔ بلاشبہ ہم آپ پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔ رات کا اٹھنا یقینا نفس کو بہت زیر کرنے (کچلنے) کا باعث اور قرآن پڑھنے کے لیے بھی زیادہ موزوں ہے۔ دن کے وقت تو آپ کو بہت مصروفیات ہوتی ہیں۔" نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ... وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ) "اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ تم اسے نبھا نہیں سکو گے، چنانچہ اس نے تم پر مہربانی کی، پھر قرآن میں جتنا آسان ہو تم پڑھو۔ اسے معلوم ہے کہ تم میں سے کچھ بیمار ہوں گے، کچھ دوسرے اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں اور کچھ دوسرے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، لہذا جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، نیز نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ اور جو کچھ تم اپنے لیے آگے بھیجو گے تو اسے اللہ کے ہاں اس حال میں پاؤ گے کہ وہ (اصل عمل سے) بہتر اور اجر کے لحاظ سے بہت زیادہ ہو گا۔"
حضرت ابن عباس ؓ تفسیر بیان فرماتے ہیں کہ نَّشَأْ کے معنی حبشی زبان میں قام ، یعنی کھڑا ہونے کے ہیں۔ وطأ کے معنی ہیں: قرآن (پڑھنے) کے لیے موافق، اس لیے کہ یہ کان، آنکھ اور دل کے بہت موافق ہے۔
لِّيُوَاطِئُوا کے معنی ہیں: ليوافقوا ، یعنی وہ موافقت کر لیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد العزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، انہوں نے انس ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کسی مہینہ میں روزہ نہ رکھتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ اب آپ اس مہینہ میں روزہ ہی نہیں رکھیں گے اور اگرکسی مہینہ میں روزہ رکھنا شروع کرتے تو خیال ہوتا کہ اب آپ ﷺ کااس مہینہ کا ایک دن بھی بغیر روزہ کے نہیں رہ جائے گا اور رات کو نمازتو ایسی پڑھتے تھے کہ تم جب چاہتے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جب چاہتے سوتا دیکھ لیتے۔ محمد بن جعفر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان اور ابو خالد نے بھی حمید سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ساری رات سوتے بھی نہیں تھے اور ساری رات جاگتے اور عبادت بھی نہیں کرتے تھے۔ ہر رات میں سوتے اور عبادت بھی کرتے تو جو شخص آپ کو جس حال میں دیکھنا چاہتا دیکھ لیتا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ساری رات جاگنا اور عبادت کرنا یا ہمیشہ روزہ رکھنا آنحضرت ﷺ کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ ان کو اتنا شعور نہیں کہ ساری رات جاگتے رہنے سے یا ہمیشہ روزہ رکھنے سے نفس کو عادت ہو جاتی ہے پھر اس کو عبادت میں کوئی تکلیف نہیں رہتی۔ مشکل یہی ہے کہ رات کو سونے کی عادت بھی رہے اسی طرح دن میں کھانے پینے کی اورپھر نفس پر زور ڈال کر جب ہی چاہے اس کی عادت توڑے۔ میٹھی نیند سے منہ موڑے۔ پس جو آنحضرت ﷺ نے کیا وہی افضل اور وہی اعلیٰ اور وہی مشکل ہے۔ آپ کی نو بیویاں تھیں آپ ﷺ ان کا حق بھی ادا فرماتے، اپنے نفس کا بھی حق ادا کرتے۔ اپنے عزیز و اقارب اور عام مسلمانوں کے بھی حقوق ادا فرماتے۔ اس کے ساتھ خدا کی بھی عبادت کرتے، کہیے اس کے لیے کتنا بڑا دل اور جگر چاہیے۔ ایک سونٹا لے کر لنگوٹ باندھ کر اکیلے دم بیٹھ رہنا اور بے فکری سے ایک طرف کے ہوجانا یہ نفس پر بہت سہل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA) Sometimes Allah's Apostle (ﷺ) would not fast (for so many days) that we thought that he would not fast that month and he sometimes used to fast (for so many days) that we thought he would not leave fasting through-out that month and (as regards his prayer and sleep at night), if you wanted