باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: The superiority of one who wakes up at night and offers the Salat with a loud voice)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1155.
ہثیم بن ابوسنان کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا، وہ وعظ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرنے لگے کہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا: ’’تمہارا بھائی عبداللہ بن رواحہ کوئی بے ہودہ بات نہیں کہتا۔‘‘ یعنی وہ کیسے اچھے مضامین سناتا ہے۔ ہم میں اللہ کے رسول ہیں جو کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں جب صبح کے وقت بلند ہونے والی پو پھٹتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے انہوں نے ہمیں ہدایت پر لگایا اور ہمیں دلی یقین ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ واقعی سچ ہے۔ رات کو ان کا پہلو بستر سے الگ رہتا ہے جبکہ نیند کی وجہ سے مشرکین پر بستر بھاری ہوتے ہیں۔ عقیل نے یونس کی متابعت کی ہے۔ اور زبیدی کا قول ہے کہ مجھے زہری نے سعید اور اعرج سے خبر دی ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا۔
تشریح:
(1) عنوان سے مطابقت ان الفاظ سے ہے: ’’آپ کا پہلو بستر سے دور رہتا ہے۔‘‘ کیونکہ ایسا شب بیداری ہی سے ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا رات کو بیدار ہونا نماز پڑھنے، ذکر کرنے اور تلاوت قرآن کے لیے تھا، گویا شاعر نے اس ارشاد باری تعالیٰ کی طرف اشارہ کیا ہے: ﴿تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا﴾(السجدة:16:32)’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے پکارتے ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اشعار اچھے کلام کی طرح قابل ستائش ہیں۔ (فتح الباري:54/3) (2) عقیل کی متابعت کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے اور زبیدی کی تعلیق کو امام بخاری ؒ نے تاریخ صغیر اور امام طبرانی نے معجم کبیر میں متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:55/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1131
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1155
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1155
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1155
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
ہثیم بن ابوسنان کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا، وہ وعظ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرنے لگے کہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا: ’’تمہارا بھائی عبداللہ بن رواحہ کوئی بے ہودہ بات نہیں کہتا۔‘‘ یعنی وہ کیسے اچھے مضامین سناتا ہے۔ ہم میں اللہ کے رسول ہیں جو کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں جب صبح کے وقت بلند ہونے والی پو پھٹتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے انہوں نے ہمیں ہدایت پر لگایا اور ہمیں دلی یقین ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ واقعی سچ ہے۔ رات کو ان کا پہلو بستر سے الگ رہتا ہے جبکہ نیند کی وجہ سے مشرکین پر بستر بھاری ہوتے ہیں۔ عقیل نے یونس کی متابعت کی ہے۔ اور زبیدی کا قول ہے کہ مجھے زہری نے سعید اور اعرج سے خبر دی ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) عنوان سے مطابقت ان الفاظ سے ہے: ’’آپ کا پہلو بستر سے دور رہتا ہے۔‘‘ کیونکہ ایسا شب بیداری ہی سے ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا رات کو بیدار ہونا نماز پڑھنے، ذکر کرنے اور تلاوت قرآن کے لیے تھا، گویا شاعر نے اس ارشاد باری تعالیٰ کی طرف اشارہ کیا ہے: ﴿تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا﴾(السجدة:16:32)’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے پکارتے ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اشعار اچھے کلام کی طرح قابل ستائش ہیں۔ (فتح الباري:54/3) (2) عقیل کی متابعت کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے اور زبیدی کی تعلیق کو امام بخاری ؒ نے تاریخ صغیر اور امام طبرانی نے معجم کبیر میں متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:55/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہیثم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے سنا، آپ اپنے وعظ میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر کر رہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بھائی نے (اپنے نعتیہ اشعار میں) یہ کوئی غلط بات نہیں کہی۔ آپ کی مراد عبد اللہ بن رواحہ ؓ اور ان کے اشعار سے تھی جن کا ترجمہ یہ ہے : ’’ہم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، جو اس کی کتاب اس وقت ہمیں سناتے ہیں جب فجر طلوع ہوتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے آپ ﷺ نے ہمیں گمراہی سے نکال کر صحیح راستہ دکھایا۔ ان کی باتیں اسی قدر یقینی ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جاکر بیٹھ جاتی ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ضرور واقع ہو گا۔ آپ ﷺ رات بستر سے اپنے کوالگ کر کے گزارتے ہیں جبکہ مشرکوں سے ان کے بستر بوجھل ہو رہے ہوتے ہیں۔‘‘ یونس کی طرح اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور زبیدی نے یوں کہا سعید بن مسیب اور اعرج سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے۔
حدیث حاشیہ:
زبیدی کی روایت کو امام بخارى ؒ نے تاریخ میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں نکالا۔ امام بخاری کی غرض اس بیان سے یہ ہے کہ زہری کے شیخ میں راویوں کا اختلاف ہے۔ یونس اور عقیل نے ہیثم بن ابی سنان کہا ہے اور زبیدی نے سعید بن مسیب اور اعرج اور ممکن ہے کہ زہری نے ان تینوں سے اس حدیث کو سنا ہو، حافظ نے کہا کہ امام بخاری کے نزدیک پہلا طریق راجح ہے، کیونکہ یونس اور عقیل دونوں نے بالاتفاق زہری کا شیخ ہیثم کو قرار دیا ہے (وحیدی) اس حدیث سے ثابت ہو اکہ مجالس وعظ میں رسول کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کا نظم ونثر میں ذکر کرنا درست اور جائز ہے۔ سیرت کے سلسلہ میں آپ ﷺ کی ولادت با سعادت اور حیات طیبہ کے واقعات کا ذکر کرنا باعث ازدیاد ایمان ہے، لیکن محافل میلاد مروجہ کا انعقاد کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں۔ عہد صحابہ وتابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین وجملہ محدثین کرام میں ایسی محافل کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔ پورے چھ سو سال گرز گئے دنیائے اسلام محفل میلاد کے نام سے بھی آشنا نہ تھی۔ تاریخ ابن خلکان میں ہے کہ اس محفل کا موجد اول ایک بادشاہ ابو سعید مظفرالدین نامی تھا، جو نزد موصل اربل نامی شہر کا حاکم تھا۔ علمائے راسخین نے اسی وقت سے اس نوایجاد محفل کی مخالفت فرمائی۔ مگر صد افسوس کہ نام نہاد فدائیان رسول اللہ ﷺ آج بھی بڑے طنطنہ سے ایسی محافل کرتے ہیں جن میں نہایت غلط سلط روایات بیان کی جاتی ہیں، چراغاں اور شیرنی کا اہتمام خاص ہوتا ہے اور اس عقیدہ سے قیام کر کے سلام پڑھا جاتاہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک خود اس محفل میں تشریف لائی ہے۔ یہ جملہ امور غلط بے ثبوت ہیں جن کے کرنے سے بدعت کا ارتکاب لازم آتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے صاف فرما دیا کہ مَن أَحدثَ فِي أمرِنا ھذا ما لیس منه فھُوَ رَد۔جو ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرے جس کا ثبوت ادلہ شرعیہ سے نہ ہو وہ مردود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) That once Allah's Apostle (ﷺ) said, "Your brother, i.e. 'Abdullah bin Rawaha does not say obscene (referring to his verses): Amongst us is Allah's Apostle, who recites His Book when it dawns. He showed us the guidance, after we were blind. We believe that whatever he says will come true. And he spends his nights in such a way as his sides do not touch his bed. While the pagans were deeply asleep." ________