Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: To offer two Rak'a before the Zuhr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1182.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ظہر سے پہلے چار سنتیں اور نماز فجر سے پہلے دو سنتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ شعبہ سے روایت کرنے میں ابن ابی عدی اور عمرو نے یحییٰ بن سعید کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
حدیث ابن عمر میں نماز ظہر سے پہلے دو سنت اور حدیث عائشہ ؓ میں ظہر سے پہلے چار سنت پڑھنے کا ذکر ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق بیان کیا ہے، اس لیے دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات دو رکعت پڑھتے تھے جسے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا ہے جبکہ آپ نے چار رکعت بھی ادا کی ہیں جسے حضرت عائشہ ؓ نے ذکر فرمایا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ مسجد میں دو رکعت پڑھتے ہوں اور اگر گھر پڑھتے ہوں تو چار رکعت ادا کرتے ہوں، جیسا کہ ایک روایت میں ہے، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے، پھر مسجد میں تشریف لے جاتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں دو رکعت پڑھ کر مسجد میں جاتے ہوں، پھر مسجد میں دو رکعت ادا کرتے ہوں۔ اس بنا پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے صرف مسجد میں ادا کردہ رکعات کو بیان فرمایا جبکہ حضرت عائشہ ؓ نے مسجد اور گھر کی رکعات کو بیان فرمایا ہے۔ بہرحال آپ اکثر طور پر چار رکعات پڑھتے تھے اور کبھی کبھار دو رکعت پر اکتفا کر لیتے تھے۔ (فتح الباري:76/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1154
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1182
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1182
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1182
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ظہر سے پہلے چار سنتیں اور نماز فجر سے پہلے دو سنتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ شعبہ سے روایت کرنے میں ابن ابی عدی اور عمرو نے یحییٰ بن سعید کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث ابن عمر میں نماز ظہر سے پہلے دو سنت اور حدیث عائشہ ؓ میں ظہر سے پہلے چار سنت پڑھنے کا ذکر ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق بیان کیا ہے، اس لیے دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات دو رکعت پڑھتے تھے جسے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا ہے جبکہ آپ نے چار رکعت بھی ادا کی ہیں جسے حضرت عائشہ ؓ نے ذکر فرمایا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ مسجد میں دو رکعت پڑھتے ہوں اور اگر گھر پڑھتے ہوں تو چار رکعت ادا کرتے ہوں، جیسا کہ ایک روایت میں ہے، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے، پھر مسجد میں تشریف لے جاتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں دو رکعت پڑھ کر مسجد میں جاتے ہوں، پھر مسجد میں دو رکعت ادا کرتے ہوں۔ اس بنا پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے صرف مسجد میں ادا کردہ رکعات کو بیان فرمایا جبکہ حضرت عائشہ ؓ نے مسجد اور گھر کی رکعات کو بیان فرمایا ہے۔ بہرحال آپ اکثر طور پر چار رکعات پڑھتے تھے اور کبھی کبھار دو رکعت پر اکتفا کر لیتے تھے۔ (فتح الباري:76/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے ابرہیم بن محمد بن منتشر نے، ان سے ان کے باپ محمد بن منتشر نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعت سنت اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت سنت نماز پڑھنی نہیں چھوڑتے تھے۔ یحیٰ کے ساتھ اس حدیث کو ا بن ابی عدی اور عمرو بن مرزوق نے بھی شعبہ سے روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث باب کے مطابق نہیں، کیونکہ باب میں دو رکعتیں ظہر سے پہلے پڑھنے کا ذکر ہے اور شاید ترجمہ باب کا یہ مطلب ہو کہ ظہر سے پہلے دوہی رکعتیں پڑھنا ضروری نہیں، چار بھی پڑھ سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) never missed four Rakat before the Zuhr prayer and two Rakat before the Fajr prayer.