Sahi-Bukhari:
Virtues of Prayer at Masjid Makkah and Madinah
(Chapter: Whoever visited the mosque of Quba every Saturday)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1193.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ ہر ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل اور سوار ہو کر تشریف لے جاتے تھے۔ اور (راوی حدیث کہتے ہیں:) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی اس طرح کرتے تھے۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مسجد قباء ان مساجد سے ہے جن کی طرف پیدل اور سوار ہو کر جانے میں چنداں حرج نہیں اور ایسا کرنا رخت سفر باندھنے سے متعلق حکم امتناعی میں داخل نہیں۔ جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی تو اہل قباء اور باشندگان عوالی نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد نبوی میں آئے تھے، اس بنا پر جمعہ کے دن مسجد قباء نمازیوں سے خالی رہتی تھی۔ اس کی تلافی کے لیے رسول اللہ ﷺ ہفتے کے دن مسجد قباء تشریف لے جاتے تھے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ جمعے کے دن مشاغل کا ہجوم ہوتا تھا اور ہفتے کے روز فرصت کے لمحات میسر آنے پر آپ مسجد قباء کا رخ فرماتے تاکہ اہل قباء کی خبر گیری کی جائے اور جمعہ کے لیے مدینہ منورہ نہ جا سکنے والوں کا حال دریافت کیا جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے طور پر بعض اعمال صالح کی ادائیگی کے لیے کسی دن کو متعین کیا جا سکتا ہے اور پھر اس پر مداومت کرنا بھی جائز ہے۔ (فتح الباري:90/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1163
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1193
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1193
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1193
تمہید کتاب
صحیح بخاری کا موضوع امکانی حد تک امت مسلمہ کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی رہنمائی کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ کی زمین پر مساجد بہترین خطبے اور بازار بدترین ٹکڑے ہیں۔ اللہ کے بندے اس کی عبادت اور خوشنودی کے لیے ان مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ مساجد کو نظر انداز کر کے مشاہدہ و مقابر اور مزارات کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہاں مدفون بزرگ خوش ہو کر ان کی حاجت روائی کا وسیلہ بن جائیں، پھر ان کی اس درجہ تعظیم کرتے ہیں جو کھلے شرک تک پہنچ جاتی ہے، مثلاً: کسی درگاہ پر چلہ کشی یا خانقاہ پر اعتکاف یا آستانے پر نذرونیاز یا بغرض ثواب مزارات کا سفر اس اعتقادی خرابی کے برگ و ہار ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تطوع کے ابواب کے بعد اس مسئلے کی وضاحت بھی ضروری خیال کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے مرفوع احادیث پر چھ (6) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: سب سے پہلے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت بیان فرمائی۔ اس کے بعد مسجد قباء کا ذکر کیا۔ اس مناسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کا حوالہ دیا کہ آپ ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل یا سوار ہو کر جاتے تھے۔ بعد ازاں مسجد نبوی میں بعض مقامات کی فضیلت بیان فرمائی اور آخر میں مسجد اقصیٰ کی فضیلت کے متعلق حدیث ذکر کی۔دراصل اس عالم رنگ و بو میں کوئی قطعۂ ارضی ایسا نہیں جس کا فضل و شرف اپنا ذاتی ہو تاکہ اس کے فضل و شرف کی وجہ سے اس کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہو، ہاں تین مساجد ایسی ہیں جن کی زیارت کی خاطر سفر کرنا عبادت اور باعث اجروثواب ہے اور ان کی فضیلت کے متعلق شریعت نے ہمیں آگاہ کیا ہے جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا۔ ان مساجد کے نام یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ مسجد قباء کی طرف جانے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت بھی احادیث میں وارد ہے، لہذا وہ ممانعت کے اس عمومی حکم سے مستثنیٰ ہے۔ ان کے علاوہ دیگر شہروں کا سفر تبلیغ اسلام، جہاد فی سبیل اللہ، تحصیل علم، زیارت اخوان اور کسب معاش وغیرہ کے لیے تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ذاتی شرف کی وجہ سے بغرضِ تقرب و عبادت نہیں کیونکہ دیگر مقامات کا سفر بغرض عبادت مشروع نہیں جیسا کہ ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جب کوہ طور سے واپس آئے تو وہ ان سے ملے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں کوہ طور پر گیا تھا، وہاں نماز پڑھ کر واپس آیا ہوں۔ حضرت ابو بصرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے آپ کے وہاں جانے کا پہلے علم ہو جاتا تو آپ کو وہاں نہ جانے دیتا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: "تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ جانے کے لیے رخت سفر نہیں باندھنا چاہیے۔ وہ مسجدیں یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔" (مسنداحمد:6/7)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت و تقرب کی نیت سے جانا منع ہے۔ یہ ممانعت مسجد قباء کی طرف سفر کرنے میں رکاوٹ نہیں کیونکہ اس کی طرف سفر اختیار کرنے اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ اس کی تفصیل باب: 34 کے تحت آ رہی ہے۔ اس حکم امتناعی کو صرف مساجد سے خاص کرنا صحیح نہیں کیونکہ صحابئ رسول نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوہ طور پر قصداً عبادت کی نیت سے سفر کرنے کو منع فرمایا ہے، حالانکہ جبل طور پر مسجد نہیں بلکہ وہ ایک مقدس مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام رب کائبات سے ہم کلام ہوئے تھے۔ جب ایسے مقام پر بغرضِ عبادت جانے کی اجازت نہیں تو ملک عزیز میں پھیلے ہوئے مزارات و مشاہد پر بغرض عبادت و زیارت جانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ چونکہ شرعی طور پر ایسا کرنا بے شمار مفاسد کا پیش خیمہ تھا، اس لیے اس کا سدباب ضروری تھا، البتہ قبرستان میں اہل قبور کے لیے دعائے مغفرت کی خاطر جانا متعدد احادیث سے ثابت ہے، نیز وہاں جانے سے آخرت کی یاددہانی بھی ہوتی ہے۔ مسجد نبوی میں ادائے نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضری دینا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا، پھر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر سلام پڑھنا، اس کے بعد بقیع کے قبرستان میں جا کر وہاں مدفون جملہ اموات کے لیے دعائے مغفرت کرنا احادیث سے ثابت ہے جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ہماری ان گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ قلب و ذہن کے لیے جلا کا باعث ہوں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ ہر ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل اور سوار ہو کر تشریف لے جاتے تھے۔ اور (راوی حدیث کہتے ہیں:) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی اس طرح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مسجد قباء ان مساجد سے ہے جن کی طرف پیدل اور سوار ہو کر جانے میں چنداں حرج نہیں اور ایسا کرنا رخت سفر باندھنے سے متعلق حکم امتناعی میں داخل نہیں۔ جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی تو اہل قباء اور باشندگان عوالی نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد نبوی میں آئے تھے، اس بنا پر جمعہ کے دن مسجد قباء نمازیوں سے خالی رہتی تھی۔ اس کی تلافی کے لیے رسول اللہ ﷺ ہفتے کے دن مسجد قباء تشریف لے جاتے تھے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ جمعے کے دن مشاغل کا ہجوم ہوتا تھا اور ہفتے کے روز فرصت کے لمحات میسر آنے پر آپ مسجد قباء کا رخ فرماتے تاکہ اہل قباء کی خبر گیری کی جائے اور جمعہ کے لیے مدینہ منورہ نہ جا سکنے والوں کا حال دریافت کیا جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے طور پر بعض اعمال صالح کی ادائیگی کے لیے کسی دن کو متعین کیا جا سکتا ہے اور پھر اس پر مداومت کرنا بھی جائز ہے۔ (فتح الباري:90/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبدا للہ بن عمر ؓ نے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ہر ہفتہ کو مسجد قباء آتے پیدل بھی (بعض دفعہ) اور سواری پر بھی اور عبداللہ بن عمر ؓ بھی ایسا ہی کرتے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ مسجد قباء کی ان دو رکعتوں کا عظیم ثواب ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو نصیب فرمائے۔ آمین۔ یہی وہ تاریخی مسجد ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ان لفظوں میں کیا گیا ہے ﴿لَمَسجِد اُسِّسَ عَلَی التَّقوٰی مِن اَوَّلِ یَومٍ اَحَقُّ اَن تَقُومَ فِیہِ فِیہِ رِجَال یُّحِبُّونَ اَن یَّتَطَھَّرُوا وَاللّٰہُ یُحِبُّ المُطَّھَّرِینَ﴾(التوبة:108)یعنی یقیناً اس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے۔ اس میں تیرا نماز کے لیے کھڑا ہونا انسب ہے۔ کیونکہ اس میں ایسے نیک دل لوگ ہیں جو پاکیزگی چاہتے ہیں۔ اور اللہ تعالی پاکی چاہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Dinar (RA): Ibn 'Umar (RA) said, "The Prophet (ﷺ) used to go to the Mosque of Quba every Saturday (sometimes) walking and (sometimes) riding." 'Abdullah (Ibn 'Umar (RA)) used to do the same. ________