باب: اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کی ماں اس کو بلائے تو کیا کرے؟
)
Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: If a mother calls her son while he is offering As-Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1206.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک عورت نے اپنے بیٹے کو آواز دی جبکہ وہ اپنے عبادت خانے میں (مصروف عبادت) تھا، اس نے کہا: اے جریج! جریج نے (دل میں) کہا: اے اللہ! ایک طرف میری والدہ ہے، دوسری طرف میری نماز ہے۔ وہ پھر بولی: اے جریج! جریج گویا ہوا: یا اللہ! میری والدہ اور میری نماز، میں کسے اختیار کروں۔ اس عورت نے تیسری مرتبہ پکارا: اے جریج! اس نے پھر وہی کہا: یا اللہ! ادھر میری والدہ ہے ادھر میری نماز ہے۔ (بہرحال اس نے نماز کو نہ چھوڑا تو) ماں نے بددعا کی: اے اللہ! جریج کو موت نہ آئے جب تک وہ بدمعاش عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے، چنانچہ اس کے عبادت خانے کے پاس ایک بکریاں چرانے والی عورت ٹھہرا کرتی تھی۔ اس نے ایک بچے کو جنم دیا تو اس سے کہا گیا: یہ بچہ کس شخص کا ہے؟ وہ کہنے لگی: (نومولود) جریج سے ہے۔ وہ یہ الزام سن کر اپنے عبادت خانے سے نیچے اترا اور کہنے لگا: وہ عورت کہاں ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ یہ بچہ مجھ سے ہے؟ جریج نے بچے کو مخاطب کر کے کہا: اے شیر خوار! تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ بکریاں چرانے والا ایک گڈریا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ جب کئی متعارض امور جمع ہو جائیں تو اہم اور ضروری امر کو اختیار کرنا چاہیے۔ حضرت جریج کو چاہیے تھا کہ وہ نماز کو مختصر یا ختم کر کے اپنی والدہ کی آواز پر لبیک کہتے۔ انہوں نے اس امر میں کوتاہی کی تو ان کی والدہ کی بددعا مؤثر ثابت ہوئی۔ نماز تو بعد میں بھی ادا ہو سکتی تھی، لیکن ماں کی مامتا کو اولین ترجیح دینا ضروری تھا۔ چونکہ ان پر جو الزام لگا وہ بھی انتہائی سنگین تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس کی براءت کا سبب پیدا فرمایا۔ جب نومولود بچے نے ان کے پاک دامن ہونے کی شہادت دی تو معلوم ہوا کہ وہ حق و صداقت کے پیکر تھے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث سے قطعاً یہ استدلال نہیں کیا کہ دوران نماز میں گفتگو کرنا مباح ہے جبکہ خود امام بخاری اس کے ممنوع ہونے پر ایک عنوان قائم کر چکے ہیں۔ (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، باب:2) رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے کہ اگر آپ کسی انسان کو آواز دیں جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اس پر لازم ہے کہ نماز توڑ کر آپ کی آواز پر لبیک کہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4847) اس مقام پر دو مسئلے ہیں جن میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس اختلاف کی وجہ سے دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں ماں کی پکار پر لبیک کہنا ضروری ہے یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ اگر لبیک کہنا ضروری ہے تو اس سے نماز باطل ہو گی یا نہیں؟ (فتح الباري:102/3) اس حدیث کے متعلق دیگر مباحث ہم صحیح البخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، حدیث: 3436 کے تحت ذکر کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1176
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1206
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1206
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1206
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک عورت نے اپنے بیٹے کو آواز دی جبکہ وہ اپنے عبادت خانے میں (مصروف عبادت) تھا، اس نے کہا: اے جریج! جریج نے (دل میں) کہا: اے اللہ! ایک طرف میری والدہ ہے، دوسری طرف میری نماز ہے۔ وہ پھر بولی: اے جریج! جریج گویا ہوا: یا اللہ! میری والدہ اور میری نماز، میں کسے اختیار کروں۔ اس عورت نے تیسری مرتبہ پکارا: اے جریج! اس نے پھر وہی کہا: یا اللہ! ادھر میری والدہ ہے ادھر میری نماز ہے۔ (بہرحال اس نے نماز کو نہ چھوڑا تو) ماں نے بددعا کی: اے اللہ! جریج کو موت نہ آئے جب تک وہ بدمعاش عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے، چنانچہ اس کے عبادت خانے کے پاس ایک بکریاں چرانے والی عورت ٹھہرا کرتی تھی۔ اس نے ایک بچے کو جنم دیا تو اس سے کہا گیا: یہ بچہ کس شخص کا ہے؟ وہ کہنے لگی: (نومولود) جریج سے ہے۔ وہ یہ الزام سن کر اپنے عبادت خانے سے نیچے اترا اور کہنے لگا: وہ عورت کہاں ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ یہ بچہ مجھ سے ہے؟ جریج نے بچے کو مخاطب کر کے کہا: اے شیر خوار! تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ بکریاں چرانے والا ایک گڈریا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ جب کئی متعارض امور جمع ہو جائیں تو اہم اور ضروری امر کو اختیار کرنا چاہیے۔ حضرت جریج کو چاہیے تھا کہ وہ نماز کو مختصر یا ختم کر کے اپنی والدہ کی آواز پر لبیک کہتے۔ انہوں نے اس امر میں کوتاہی کی تو ان کی والدہ کی بددعا مؤثر ثابت ہوئی۔ نماز تو بعد میں بھی ادا ہو سکتی تھی، لیکن ماں کی مامتا کو اولین ترجیح دینا ضروری تھا۔ چونکہ ان پر جو الزام لگا وہ بھی انتہائی سنگین تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس کی براءت کا سبب پیدا فرمایا۔ جب نومولود بچے نے ان کے پاک دامن ہونے کی شہادت دی تو معلوم ہوا کہ وہ حق و صداقت کے پیکر تھے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث سے قطعاً یہ استدلال نہیں کیا کہ دوران نماز میں گفتگو کرنا مباح ہے جبکہ خود امام بخاری اس کے ممنوع ہونے پر ایک عنوان قائم کر چکے ہیں۔ (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، باب:2) رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے کہ اگر آپ کسی انسان کو آواز دیں جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اس پر لازم ہے کہ نماز توڑ کر آپ کی آواز پر لبیک کہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4847) اس مقام پر دو مسئلے ہیں جن میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس اختلاف کی وجہ سے دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں ماں کی پکار پر لبیک کہنا ضروری ہے یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ اگر لبیک کہنا ضروری ہے تو اس سے نماز باطل ہو گی یا نہیں؟ (فتح الباري:102/3) اس حدیث کے متعلق دیگر مباحث ہم صحیح البخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، حدیث: 3436 کے تحت ذکر کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن بن ہرمز اعرج نے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (بنی اسرائیل کی) ایک عورت نے اپنے بیٹے کو پکارا، اس وقت وہ عبادت خانے میں تھا۔ ماں نے پکارا کہ اے جریج! جریج (پس وپیش میں پڑگیا اور دل میں) کہنے لگا کہ اے اللہ! میں اب ماں کو دیکھوں یا نماز کو۔ پھر ماں نے پکارا اے جریج! (وہ اب بھی اس پس وپیش میں تھا) کہ اے اللہ! میری ماں اور میری نماز! ماں نے پھر پکارا اے جریج! (وہ اب بھی یہی) سوچے جا رہا تھا۔ اے اللہ! میری ماں اور میری نماز! (آخر) ماں نے تنگ ہوکر بددعا کی اے اللہ! جریج کو موت نہ آئے جب تک وہ فاحشہ عورت کا چہرہ نہ دیکھ لے۔ جریج کی عبادت گاہ کے قریب ایک چرانے والی آیا کرتی تھی جو بکریاں چراتی تھی۔ اتفاق سے اس کے بچہ پیدا ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ اس نے کہا کہ جریج کا ہے۔ وہ ایک مرتبہ اپنی عبادت گاہ سے نکل کر میرے پاس رہا تھا۔ جریج نے پوچھا کہ وہ عورت کون ہے؟ جس نے مجھ پر تہمت لگائی ہے کہ اس کا بچہ مجھ سے ہے۔ (عورت بچے کو لے کر آئی تو) انہوں نے بچے سے پوچھا کہ بچے! تمہارا باپ کون؟ بچہ بول پڑا کہ ایک بکری چرانے والا گڈریا میرا باپ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ماں کی اطاعت فرض ہے اور باپ سے زیادہ ماں کا حق ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے بعضوں نے کہا جواب نہ دے، اگر دے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ بعضوں نے کہا جواب دے اور نماز فاسد نہ ہوگی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا کہ جب تو نماز میں ہو اور تیری ماں تجھ کو بلائے تو جواب دے اور اگر باپ بلائے تو جواب نہ دے۔ امام بخاری رحمہ اللہ جریج کی حدیث اس باب میں لائے کہ ماں کا جواب نہ دینے سے وہ (تنگی میں) مبتلا ہوئے۔ بعضوں نے کہا جریج کی شریعت میں نماز میں بات کرنا مباح تھا تو ان کو جواب دینا لازم تھا۔ انہوں نے نہ دیا تو ماں کی بددعا ان کو لگ گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ اگر جریج کو معلوم ہوتا تو جواب دیتا کہ ماں کا جواب دینا بھی اپنے رب کی عبادت ہے۔ بابوس ہر شیرخوار بچے کو کہتے ہیں یا اس بچے کا نام ہوگا۔ اللہ نے اس کو بولنے کی طاقت دی۔ اس نے اپنا باپ بتلایا۔ جریج اس طرح اس الزام سے بری ہوئے۔ معلوم ہوا کہ ماں کو ہر حال میں خوش رکھنا اولاد کے لیے ضروری ہے ورنہ ان کی بد دعا اولاد کی زندگی کو تباہ کر سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Allah's Messenger (ﷺ) said, "A woman called her son while he was in his hermitage and said, 'O Juraij' He said, 'O Allah, my mother (is calling me) and (I am offering) my prayer (what shall I do)?' She again said, 'O Juraij!' He said again, 'O Allah ! My mother (is calling me) and (I am offering) my prayer (what shall I do)?' She again said, 'O Juraij' He again said, 'O Allah! My mother (is calling me) and (I am offering) my prayer. (What shall I do?)' She said, 'O Allah! Do not let Juraij die till he sees the faces of prostitutes.' A shepherdess used to come by his hermitage for grazing her sheep and she gave birth to a child. She was asked whose child that was, and she replied that it was from Juraij and that he had come out from his hermitage. Juraij said, 'Where is that woman who claims that her child is from me?' (When she was brought to him along with the child), Juraij asked the child, 'O Babus, who is your father?' The child replied, 'The shepherd.' " (See Hadith No 662. Vol 3).