Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: One should not return greetings during the Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1217.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے کسی کام کے لیے بھیجا، چنانچہ میں گیا اور وہ کام کر کے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپ کو (دوران نماز میں) سلام کیا، مگر آپ نے مجھے اس کا جواب نہ دیا جس سے میرا دل اتنا رنجیدہ ہوا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ ﷺ مجھ سے اس لیے ناراض ہیں کہ میں دیر سے لوٹا ہوں، چنانچہ میں نے پھر سلام کیا تو آپ نے اس دفعہ بھی جواب نہ دیا۔ اب تو میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ رنج ہوا۔ میں نے پھر سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’چونکہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اس لیے تجھے سلام کا جواب نہ دے سکا۔‘‘ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں: اس وقت آپ سواری پر تھے جس کا رخ قبلے کی طرف نہیں تھا۔
تشریح:
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیا تھا جسے حضرت جابر ؓ نہ سمجھ سکے، اس لیے وہ پریشان اور متفکر ہوئے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1205(540)، و فتح الباري:113/3) امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور حدیث سے مقصود یہ ہے کہ دورانِ نماز میں جب نمازی کو سلام کیا جائے تو وہ اس کا جواب زبان سے نہ دے۔ آپ کا قطعاً یہ مقصود نہیں کہ نمازی کو دوران نماز میں سلام کہنا مکروہ اور جواب دینا غیر مشروع ہے، کیونکہ دیگر احادیث سے دوران نماز ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دینا ثابت ہے، چنانچہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: میں نے حضرت بلال ؓ سے پوچھا کہ لوگ جب رسول اللہ ﷺ کو دوران نماز میں سلام کرتے تو آپ انہیں کیسے جواب دیتے تھے؟ انہوں نے کہا: اس طرح کرتے اور انہوں نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، یعنی ہاتھ کے اشارے سے جواب دیتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:927)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1187
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1217
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1217
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1217
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے کسی کام کے لیے بھیجا، چنانچہ میں گیا اور وہ کام کر کے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپ کو (دوران نماز میں) سلام کیا، مگر آپ نے مجھے اس کا جواب نہ دیا جس سے میرا دل اتنا رنجیدہ ہوا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ ﷺ مجھ سے اس لیے ناراض ہیں کہ میں دیر سے لوٹا ہوں، چنانچہ میں نے پھر سلام کیا تو آپ نے اس دفعہ بھی جواب نہ دیا۔ اب تو میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ رنج ہوا۔ میں نے پھر سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’چونکہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اس لیے تجھے سلام کا جواب نہ دے سکا۔‘‘ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں: اس وقت آپ سواری پر تھے جس کا رخ قبلے کی طرف نہیں تھا۔
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیا تھا جسے حضرت جابر ؓ نہ سمجھ سکے، اس لیے وہ پریشان اور متفکر ہوئے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1205(540)، و فتح الباري:113/3) امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور حدیث سے مقصود یہ ہے کہ دورانِ نماز میں جب نمازی کو سلام کیا جائے تو وہ اس کا جواب زبان سے نہ دے۔ آپ کا قطعاً یہ مقصود نہیں کہ نمازی کو دوران نماز میں سلام کہنا مکروہ اور جواب دینا غیر مشروع ہے، کیونکہ دیگر احادیث سے دوران نماز ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دینا ثابت ہے، چنانچہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: میں نے حضرت بلال ؓ سے پوچھا کہ لوگ جب رسول اللہ ﷺ کو دوران نماز میں سلام کرتے تو آپ انہیں کیسے جواب دیتے تھے؟ انہوں نے کہا: اس طرح کرتے اور انہوں نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، یعنی ہاتھ کے اشارے سے جواب دیتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:927)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے کثیر بن شنظیر نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے ان سے جابر بن عبد اللہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی ایک ضرورت کے لیے (غزوہ بنی مصطلق میں) بھیجا۔ میں جا کر واپس آیا، میں نے کام پورا کر دیا تھا۔ پھر میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کو سلام کیا۔ لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرے دل میں اللہ جانے کیا بات آئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ ﷺ مجھ پر اس لیے خفا ہیں کہ میں دیر سے آیا ہوں۔ میں نے پھر دوبارہ سلام کیا اور جب اس مرتبہ بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو اب میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ خیال آیا۔ پھر میں نے (تیسری مرتبہ) سلام کیا، اور اب آپ ﷺ نے جواب دیا اور فرمایا کہ پہلے جو دو بار میں نے جواب نہ دیا تو اس وجہ سے تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور آپ ﷺ اس وقت اپنی اونٹنی پر تھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ تھا بلکہ دوسری طرف تھا۔
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں ہے کہ یہ غزوہ بنی المصطلق میں تھا۔ اور مسلم ہی کی روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا اور جابر ؓ کا مغموم ومتفکر ہونا اس لیے تھا کہ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ یہ اشارہ سلام کا جواب ہے۔ کیونکہ پہلے زبان سے سلام کا جواب دیتے تھے نہ کہ اشارہ سے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) sent me for some job and when I had finished it I returned and came to the Prophet (ﷺ) and greeted him but he did not return my greeting. So I felt so sorry that only Allah knows it and I said to myself,, 'Perhaps Allah's Apostle (ﷺ) is angry because I did not come quickly, then again I greeted him but he did not reply. I felt even more sorry than I did the first time. Again I greeted him and he returned the greeting and said, "The thing which prevented me from returning the greeting was that I was praying." And at that time he was on his Rahila and his face was not towards the Qibla. ________