باب:اس بیان میں کہ جب کسی عالم سے پوچھا جائے کہ لوگوں میں سے کون سا زیادہ علم ہے؟تو بہتر یہ ہے کہ وہ اللہ کے حوالے کردے یعنی یہ کہہ کہ اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے یا یہ کہ اللہ ہی جانتا ہےکہ کون سب سے بڑا عالم ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: When a religious learned man is asked, "Who is the most learned person." it is better for him to attribute or entrust absolute knowledge to Allah 'Azza wa Jall and to say. "Allah is the Most Learned (than anybody else)")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
122.
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ، موسیٰ بنی اسرائیل نہیں تھے بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ تھے۔ انہوں نے فرمایا: غلط کہتا ہے اللہ کا دشمن۔ فرمایا: حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبی موسیٰ ﷺ ایک دن بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا: سب لوگوں میں بڑا عالم کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے نہ کیا۔ پھر اللہ نے ان پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں ایک بندہ، دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر، ایسا ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ موسیٰ ؑ نے کہا: اے پروردگار! میری ان سے کیونکر ملاقات ہو گی؟ حکم ہوا: ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھو۔ جہاں وہ گم ہو جائے، وہی اس کا ٹھکانہ ہے۔ پھر موسیٰ ؑ روانہ ہوئے اور ان کا خادم یوشع بن نون بھی ساتھ تھا۔ ان دونوں نے ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھ لیا۔ جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے۔ اس دوران میں مچھلی تھیلے سے نکل کر دریا میں چلی گئی جس سے حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے خادم کو تعجب ہوا۔ پھر دونوں بقیہ دن اور ایک رات چلتے رہے۔ صبح کو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے کہا: ناشتہ لاؤ! ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں۔ موسیٰ جب تک اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انہوں نے کچھ تھکاوٹ محسوس نہ کی۔ اس وقت ان کے خادم نے کہا: کیا آپ نے دیکھا کہ جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو مچھلی (نکل بھاگی تھی اور میں اس کا ذکر کرنا) بھول گیا۔ موسیٰ ؑ نے کہا: ہم تو اس کی تلاش میں تھے۔ آخر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے پاؤں کی نشانوں پر واپس لوٹے۔ جب اس پتھر کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی کپڑا لپیٹے ہوئے یا اپنے کپڑے میں لپٹا ہوا ہے۔ موسیٰ ؑ نے اسے سلام کیا۔ حضرت خضر نے کہا: تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: (میں یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں بلکہ) میں موسیٰ ہوں۔ حضرت خضر ؑ نے کہا: کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: کیا میں اس امید پر تمہارے ہمراہ ہو جاؤں جو کچھ ہدایت کی تمہیں تعلیم دی گئی ہے، وہ مجھے بھی سکھا دو گے۔ خضر ؑ نے کہا: تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ! بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک (قسم کا) علم مجھے دیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے اور تم کو ایک قسم کا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: ان شاءاللہ تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر وہ دونوں سمندر کے کنارے چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی، اتنے میں ایک کشتی گزری، انہوں نے کشتی والوں سے کہا: ہمیں سوار کر لو۔ حضرت خضر ؑ پہچان لیے گئے، اس لیے کشتی والوں نے بغیر اجرت کے بٹھا لیا۔ اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے بیٹھ کر اس نے سمندر میں ایک دو چونچیں ماریں۔ حضرت خضر ؑ گویا ہوئے: اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف چڑیا کی چونچ کی بقدر حصہ لیا ہے۔ پھر حضرت خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ حضرت موسیٰ ؑ کہنے لگے: ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرائے کے سوارکیا اور آپ نے یہ کام کیا کہ ان کی کشتی میں چھید کر ڈالا تاکہ اہل کشتی کو غرق کر دو۔ حضرت خضرؑ نے فرمایا: کیا میں نے نہ کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ نے جواب دیا: میری بھول چوک پر مؤاخذہ نہ کریں۔ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:) موسیٰ کا پہلا اعتراض بھول کی وجہ سے تھا۔ پھر دونوں (کشتی سے اتر کر) چلے، ایک لڑکا ملا جو دوسرے لڑکوں سے کھیل رہا تھا۔ خضر نے اس کا سر پکڑ کر الگ کر دیا۔ موسیٰ نے کہا: آپ نے ایک معصوم جان کو ناحق قتل کیا۔ خضر نے کہا: میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ سے میرے ساتھ صبر نہیں ہو سکے گا؟‘‘ ابن عیینہ نے کہا: یہ زیادہ تاکیدی الفاظ ہیں (کیونکہ اس میں لك کا اضافہ ہے۔) ’’پھر دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے باشندوں سے انہوں نے کھانا مانگا تو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اسی دوران میں دونوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی۔ حضرت خضر نے اسے اپنے ہاتھ سے سہارا دے کر سیدھا کر دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: اگر تم چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے؟ حضرت خضر بولے: بس یہاں سے ہمارے تمہارے درمیان جدائی کی گھڑی آ پہنچی ہے۔‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! ہم چاہتے تھے، کاش موسیٰ صبر کرتے تو ان کے اور حالات بھی ہم سے بیان کیے جاتے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ بڑائی، تفاخر اورخود پسندی کے اسباب علماء کو زیادہ میسر آتے ہیں، اس لیے یہ حضرات اپنی وجاہت اور شہرت کو بچانے کے لیے ہر بات کا جواب دینا ضروری خیال کرتے ہیں، مبادا ان کے متعلق کوئی بدگمانی پیدا ہو جائے کہ اسے اس سوال کا جواب نہیں آیا، یہ کیساعالم ہے؟ علماء کو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ جب ایک جلیل القدر پیغمبر کو معتوب ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے واللہ أعلم نہیں کہا توعام علماء کس طرح نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؟علماء کو چاہیے کہ ہر وقت اپنا جہل پیش نظررکھیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾(بنی اسرائیل: 85:17) ’’اور تمھیں علم بہت ہی کم دیاگیا ہے‘‘۔ نیز فرمایا: ﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ﴾(یوسف: 12:76)’’ہرجاننے والے کے اوپر ایک جاننے والا ہے۔‘‘ قرآن کی اس وضاحت کے پیش نظر علمائے کرام کی معلومات بہرحال محدود اور ان کی مجہولات غیر محدود ہیں۔ اپنی معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے مجہولات کو نظر انداز کردینا دانشمندی نہیں۔ جب کسی عالم دین کے سامنے اپنی مجہولات ہوں گی تو دماغ میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ میں سب سے بڑا ہوں۔ اگرچہ موسیٰ علیہ السلام کا جواب اس اعتبار سے صحیح تھا کہ آپ صاحب کتاب، جلیل القدر پیغمبر تھے، انھیں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، اس بنا پر جوعلوم و معارف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو سکتے تھے، وہ کسی دوسرے کے پاس کیسے ہوسکتے تھے؟ لیکن اللہ کی جناب میں ان کا یہ جواب ان کی شایان شان نہ تھا۔ انھیں اپنے علم کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس تناظر میں علماء حضرات کی تربیت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ (اَعلَمُ النَّاسِ) کون ہے؟ تو اپنے آپ كو پيش نظر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس طرح بھی نہ کہے کہ لوگوں کی نظر تو مجھ پر ہی پڑتی ہے۔ اگرسوال نہ بھی کیا جائے تب بھی خود کو اونچا نہ خیال کیاجائے۔ علماء کو چاہیے کہ وہ ہرحالت میں تواضع کو پیش نظر رکھیں اور اپنے نقص اوراللہ کے کمال کے معترف رہیں۔ 2۔ موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں دوچیزوں کے متعلق اختلاف ہوا: (الف)۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جن سے ملاقات کے متعلق اپنی خواہش کا اظہار کیا اور اپنے گھر سے رخت سفر باندھا وہ حضرت خضر ہیں یا کوئی اور صاحب؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےتھے کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں جبکہ حضرت حر بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف کچھ اورتھا۔ اس اختلاف کا فیصلہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی موافقت میں دیا۔ (ب)۔ دوسرا اختلاف یہ تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جانے والے حضرت موسیٰ بن عمران پیغمبر ہیں یا موسیٰ بن میثا؟ حضرت ابو یزید نوف بن فضالہ بکالی جو دمشق کے بہت بڑے عالم دین اور جلیل القدر تابعی ہیں، ان کاموقف تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر نہیں بلکہ میثا کے بیٹے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ واضح رہے کہ انھیں یہ معلومات جناب کعب احبار سے ملی تھیں کیونکہ نوف بکالی کعب احبار کی بیوی کے بیٹے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مؤقف کی بڑی سختی سے تردید فرمائی۔ فرمایا کہ اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حقیقتاً اسے اللہ کا دشمن سمجھتے تھے بلکہ بات یہ ہے کہ حضر ت نوف بکالی بہت بڑے واعظ تھے اور واعظین حضرات کا وقار عوام الناس میں بہت ہوتا ہے۔ اگرحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پرزور انداز میں تردید نہ فرماتے تو اندیشہ تھا کہ عقیدت مند حضرات اس موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ( عمدۃ القاری 272/2) حضرت خضر اس اعتبار سے زیادہ عالم تھے کہ انھیں تکویینات سے کچھ معلومات دی گئی تھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہ تھیں۔ ان کے پاس علم تشریعی تھا جس کا کچھ حصہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس ضرور تھا کیونکہ حضرت خضر، خواہ نبی ہوں یا ولی، کسی نہ کسی شریعت کے ضرور پابند تھے۔ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تشریعی علوم کے مقابلے میں ان کے تکوینی علوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے جس کا اعتراف حضرت خضر علیہ السلام نے بایں الفاظ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قسم کا علم مجھے دیا ہے جو تمہارے پاس نہیں اور تمھیں ایک قسم کا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں۔ دراصل حضرت خضر علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے علوم آپ کے پاس نہیں، اور آپ کے علوم میرے پاس نہیں۔ اس لیے (اَعلَم) میں ہوں نہ کہ آپ، بلکہ (اَعلَم) وه ذات اقدس ہے جس نے ہم دونوں کو علم سے بہرہ ورکیا ہے۔ 4۔ اس واقعے کے اختتام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے انھوں نے صبر نہ کیا بلکہ جلدی سے کام لیا، اگرحضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رہتے تو ان کے مزید حالات سے ہمیں آگاہی ہوتی۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ تکوینی علوم آپ کے پاس بھی نہ تھے، وہ صرف حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تھے، لیکن یہ کوئی وجہ فضیلت نہیں، کیونکہ تکوینی علوم خالق کائنات کے لیے باعث کمال ہیں، کسی مخلوق کے لیے نہیں۔ اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکوینی علوم سے ناواقف ہونا کمی کی دلیل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ 5۔ حضرت خضر علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہ تھے لیکن آپ کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ انھیں چاہیے تھا کہ اس بات کو اللہ کے حوالے کر دیتے، چنانچہ ان کا مقابلہ ایسے انسان سے کرایا گیا جو ان سے درجے میں کہیں کم تھا تاکہ اس قسم کا دعویٰ نہ کریں۔ 6۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز عمل سے یہ معلوم ہوا کہ ایک عالم دین کو خلاف شرع کام دیکھ کر خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کا انکار کرنا ضروری ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہی تقاضا ہے۔خلاف شریعت کام دیکھ کر علم کے باوجود انھیں ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلینا اور حق بات نہ کہنا، ضعف ایمان کی علامت ہے جو ایک عالم کی شان کے خلاف ہے۔ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم أجمعین کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری وقت بھی انھوں نے یہ فریضہ ادا کیا اور اس میں ذرہ بھر کوتاہی کو روا نہ رکھا۔ رضي الله عنهم أجمعين۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
124
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
122
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
122
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
122
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ، موسیٰ بنی اسرائیل نہیں تھے بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ تھے۔ انہوں نے فرمایا: غلط کہتا ہے اللہ کا دشمن۔ فرمایا: حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبی موسیٰ ﷺ ایک دن بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا: سب لوگوں میں بڑا عالم کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے نہ کیا۔ پھر اللہ نے ان پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں ایک بندہ، دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر، ایسا ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ موسیٰ ؑ نے کہا: اے پروردگار! میری ان سے کیونکر ملاقات ہو گی؟ حکم ہوا: ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھو۔ جہاں وہ گم ہو جائے، وہی اس کا ٹھکانہ ہے۔ پھر موسیٰ ؑ روانہ ہوئے اور ان کا خادم یوشع بن نون بھی ساتھ تھا۔ ان دونوں نے ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھ لیا۔ جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے۔ اس دوران میں مچھلی تھیلے سے نکل کر دریا میں چلی گئی جس سے حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے خادم کو تعجب ہوا۔ پھر دونوں بقیہ دن اور ایک رات چلتے رہے۔ صبح کو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے کہا: ناشتہ لاؤ! ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں۔ موسیٰ جب تک اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انہوں نے کچھ تھکاوٹ محسوس نہ کی۔ اس وقت ان کے خادم نے کہا: کیا آپ نے دیکھا کہ جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو مچھلی (نکل بھاگی تھی اور میں اس کا ذکر کرنا) بھول گیا۔ موسیٰ ؑ نے کہا: ہم تو اس کی تلاش میں تھے۔ آخر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے پاؤں کی نشانوں پر واپس لوٹے۔ جب اس پتھر کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی کپڑا لپیٹے ہوئے یا اپنے کپڑے میں لپٹا ہوا ہے۔ موسیٰ ؑ نے اسے سلام کیا۔ حضرت خضر نے کہا: تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: (میں یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں بلکہ) میں موسیٰ ہوں۔ حضرت خضر ؑ نے کہا: کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: کیا میں اس امید پر تمہارے ہمراہ ہو جاؤں جو کچھ ہدایت کی تمہیں تعلیم دی گئی ہے، وہ مجھے بھی سکھا دو گے۔ خضر ؑ نے کہا: تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ! بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک (قسم کا) علم مجھے دیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے اور تم کو ایک قسم کا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: ان شاءاللہ تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر وہ دونوں سمندر کے کنارے چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی، اتنے میں ایک کشتی گزری، انہوں نے کشتی والوں سے کہا: ہمیں سوار کر لو۔ حضرت خضر ؑ پہچان لیے گئے، اس لیے کشتی والوں نے بغیر اجرت کے بٹھا لیا۔ اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے بیٹھ کر اس نے سمندر میں ایک دو چونچیں ماریں۔ حضرت خضر ؑ گویا ہوئے: اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف چڑیا کی چونچ کی بقدر حصہ لیا ہے۔ پھر حضرت خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ حضرت موسیٰ ؑ کہنے لگے: ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرائے کے سوارکیا اور آپ نے یہ کام کیا کہ ان کی کشتی میں چھید کر ڈالا تاکہ اہل کشتی کو غرق کر دو۔ حضرت خضرؑ نے فرمایا: کیا میں نے نہ کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ نے جواب دیا: میری بھول چوک پر مؤاخذہ نہ کریں۔ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:) موسیٰ کا پہلا اعتراض بھول کی وجہ سے تھا۔ پھر دونوں (کشتی سے اتر کر) چلے، ایک لڑکا ملا جو دوسرے لڑکوں سے کھیل رہا تھا۔ خضر نے اس کا سر پکڑ کر الگ کر دیا۔ موسیٰ نے کہا: آپ نے ایک معصوم جان کو ناحق قتل کیا۔ خضر نے کہا: میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ سے میرے ساتھ صبر نہیں ہو سکے گا؟‘‘ ابن عیینہ نے کہا: یہ زیادہ تاکیدی الفاظ ہیں (کیونکہ اس میں لك کا اضافہ ہے۔) ’’پھر دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے باشندوں سے انہوں نے کھانا مانگا تو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اسی دوران میں دونوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی۔ حضرت خضر نے اسے اپنے ہاتھ سے سہارا دے کر سیدھا کر دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: اگر تم چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے؟ حضرت خضر بولے: بس یہاں سے ہمارے تمہارے درمیان جدائی کی گھڑی آ پہنچی ہے۔‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! ہم چاہتے تھے، کاش موسیٰ صبر کرتے تو ان کے اور حالات بھی ہم سے بیان کیے جاتے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ بڑائی، تفاخر اورخود پسندی کے اسباب علماء کو زیادہ میسر آتے ہیں، اس لیے یہ حضرات اپنی وجاہت اور شہرت کو بچانے کے لیے ہر بات کا جواب دینا ضروری خیال کرتے ہیں، مبادا ان کے متعلق کوئی بدگمانی پیدا ہو جائے کہ اسے اس سوال کا جواب نہیں آیا، یہ کیساعالم ہے؟ علماء کو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ جب ایک جلیل القدر پیغمبر کو معتوب ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے واللہ أعلم نہیں کہا توعام علماء کس طرح نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؟علماء کو چاہیے کہ ہر وقت اپنا جہل پیش نظررکھیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾(بنی اسرائیل: 85:17) ’’اور تمھیں علم بہت ہی کم دیاگیا ہے‘‘۔ نیز فرمایا: ﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ﴾(یوسف: 12:76)’’ہرجاننے والے کے اوپر ایک جاننے والا ہے۔‘‘ قرآن کی اس وضاحت کے پیش نظر علمائے کرام کی معلومات بہرحال محدود اور ان کی مجہولات غیر محدود ہیں۔ اپنی معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے مجہولات کو نظر انداز کردینا دانشمندی نہیں۔ جب کسی عالم دین کے سامنے اپنی مجہولات ہوں گی تو دماغ میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ میں سب سے بڑا ہوں۔ اگرچہ موسیٰ علیہ السلام کا جواب اس اعتبار سے صحیح تھا کہ آپ صاحب کتاب، جلیل القدر پیغمبر تھے، انھیں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، اس بنا پر جوعلوم و معارف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو سکتے تھے، وہ کسی دوسرے کے پاس کیسے ہوسکتے تھے؟ لیکن اللہ کی جناب میں ان کا یہ جواب ان کی شایان شان نہ تھا۔ انھیں اپنے علم کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس تناظر میں علماء حضرات کی تربیت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ (اَعلَمُ النَّاسِ) کون ہے؟ تو اپنے آپ كو پيش نظر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس طرح بھی نہ کہے کہ لوگوں کی نظر تو مجھ پر ہی پڑتی ہے۔ اگرسوال نہ بھی کیا جائے تب بھی خود کو اونچا نہ خیال کیاجائے۔ علماء کو چاہیے کہ وہ ہرحالت میں تواضع کو پیش نظر رکھیں اور اپنے نقص اوراللہ کے کمال کے معترف رہیں۔ 2۔ موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں دوچیزوں کے متعلق اختلاف ہوا: (الف)۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جن سے ملاقات کے متعلق اپنی خواہش کا اظہار کیا اور اپنے گھر سے رخت سفر باندھا وہ حضرت خضر ہیں یا کوئی اور صاحب؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےتھے کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں جبکہ حضرت حر بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف کچھ اورتھا۔ اس اختلاف کا فیصلہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی موافقت میں دیا۔ (ب)۔ دوسرا اختلاف یہ تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جانے والے حضرت موسیٰ بن عمران پیغمبر ہیں یا موسیٰ بن میثا؟ حضرت ابو یزید نوف بن فضالہ بکالی جو دمشق کے بہت بڑے عالم دین اور جلیل القدر تابعی ہیں، ان کاموقف تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر نہیں بلکہ میثا کے بیٹے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ واضح رہے کہ انھیں یہ معلومات جناب کعب احبار سے ملی تھیں کیونکہ نوف بکالی کعب احبار کی بیوی کے بیٹے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مؤقف کی بڑی سختی سے تردید فرمائی۔ فرمایا کہ اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حقیقتاً اسے اللہ کا دشمن سمجھتے تھے بلکہ بات یہ ہے کہ حضر ت نوف بکالی بہت بڑے واعظ تھے اور واعظین حضرات کا وقار عوام الناس میں بہت ہوتا ہے۔ اگرحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پرزور انداز میں تردید نہ فرماتے تو اندیشہ تھا کہ عقیدت مند حضرات اس موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ( عمدۃ القاری 272/2) حضرت خضر اس اعتبار سے زیادہ عالم تھے کہ انھیں تکویینات سے کچھ معلومات دی گئی تھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہ تھیں۔ ان کے پاس علم تشریعی تھا جس کا کچھ حصہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس ضرور تھا کیونکہ حضرت خضر، خواہ نبی ہوں یا ولی، کسی نہ کسی شریعت کے ضرور پابند تھے۔ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تشریعی علوم کے مقابلے میں ان کے تکوینی علوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے جس کا اعتراف حضرت خضر علیہ السلام نے بایں الفاظ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قسم کا علم مجھے دیا ہے جو تمہارے پاس نہیں اور تمھیں ایک قسم کا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں۔ دراصل حضرت خضر علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے علوم آپ کے پاس نہیں، اور آپ کے علوم میرے پاس نہیں۔ اس لیے (اَعلَم) میں ہوں نہ کہ آپ، بلکہ (اَعلَم) وه ذات اقدس ہے جس نے ہم دونوں کو علم سے بہرہ ورکیا ہے۔ 4۔ اس واقعے کے اختتام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے انھوں نے صبر نہ کیا بلکہ جلدی سے کام لیا، اگرحضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رہتے تو ان کے مزید حالات سے ہمیں آگاہی ہوتی۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ تکوینی علوم آپ کے پاس بھی نہ تھے، وہ صرف حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تھے، لیکن یہ کوئی وجہ فضیلت نہیں، کیونکہ تکوینی علوم خالق کائنات کے لیے باعث کمال ہیں، کسی مخلوق کے لیے نہیں۔ اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکوینی علوم سے ناواقف ہونا کمی کی دلیل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ 5۔ حضرت خضر علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہ تھے لیکن آپ کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ انھیں چاہیے تھا کہ اس بات کو اللہ کے حوالے کر دیتے، چنانچہ ان کا مقابلہ ایسے انسان سے کرایا گیا جو ان سے درجے میں کہیں کم تھا تاکہ اس قسم کا دعویٰ نہ کریں۔ 6۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز عمل سے یہ معلوم ہوا کہ ایک عالم دین کو خلاف شرع کام دیکھ کر خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کا انکار کرنا ضروری ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہی تقاضا ہے۔خلاف شریعت کام دیکھ کر علم کے باوجود انھیں ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلینا اور حق بات نہ کہنا، ضعف ایمان کی علامت ہے جو ایک عالم کی شان کے خلاف ہے۔ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم أجمعین کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری وقت بھی انھوں نے یہ فریضہ ادا کیا اور اس میں ذرہ بھر کوتاہی کو روا نہ رکھا۔ رضي الله عنهم أجمعين۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، انھیں سعید بن جبیر ؓ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ ؑ (جو خضر ؑ کے پاس گئے تھے وہ) موسی بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، (یہ سن کر) ابن عباس ؓ بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسی ؑ نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انھوں نے علم کو خدا کے حوالے کیوں نہ کر دیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ (جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ ؑ نے کہا اے پروردگار! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں (وہیں) ملے گا۔ تب موسیٰ ؑ چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انھوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب (ایک) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی کے لیے بے حد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں (جتنا وقت باقی تھا) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ ؑ نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے (کافی) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ ؑ بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انھیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، (بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا، وہ اس مچھلی پر پڑا، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی) (یہ سن کر) موسی ؑ بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے (موجود ہے) موسیٰ ؑ نے انھیں سلام کیا، خضر ؑ نے کہا کہ تمہاری سرزمین میں سلام کہاں؟ پھر موسی ؑ نے کہا کہ میں موسیٰؑ ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسی؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تا کہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر ؑ بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ اسے موسیٰ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ (اس پر) موسیٰ نے کہا کہ خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انھوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر ؑ کو انھوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں (اسے دیکھ کر) خضر ؑ بولے کہ اے موسی! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر (کے پانی) سے پھر خضر ؑ نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ ؑ نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر (مفت میں) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی (کی لکڑی) اکھاڑ ڈالی تا کہ یہ ڈوب جائیں، خضر ؑ بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ (اس پر) موسی ؑ نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔ موسی ؑ نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔ پھر دونوں چلے (کشتی سے اتر کر) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر ؑ نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا۔ موسی ؑ بول پڑے کہ آپ نے ایک بے گناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا (غضب ہو گیا) خضر ؑ بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے (کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لك نہیں کہا تھا، اس میں لك زائد کیا، جس سے تاکید ظاہر ہے) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انھوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر ؑ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو (گاؤں والوں سے) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ (بس اب) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰؑ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰؑ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے (اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے، مگر حضرت موسی ؑ کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
نوف بکالی تابعین سے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غصہ کی حالت میں اللہ کا دشمن کہہ دیا۔ کیونکہ انھوں نے صاحب خضر موسیٰ بن میشا کو کہہ دیا تھا جو کہ یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ حالانکہ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب بنی اسرائیل ہی کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کے خلاف رائے و قیاس پر چلنے والوں پر ایسا عتاب جائز ہے۔ حضرت خضر نبی ہوں یا ولی مگر حضرت موسیٰ سے افضل نہیں ہوسکتے۔ مگرحضرت موسیٰ کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوا اور ان کا مقابلہ ایسے بندے سے کرایا جو ان سے درجہ میں کم تھے، تاکہ وہ آئندہ ایسا دعویٰ نہ کریں، حضرت موسیٰ نے جب حضرت خضر کو سلام کیا، توانھوں نے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا، ساتھ ہی وہ گھبرائے بھی کہ یہ سلام کرنے والے صاحب کہاں سے آگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خضرعلیہ السلام کو بھی غیب کا علم نہ تھا، لہٰذا جو لوگ انبیاء و اولیاء کے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا علم ظاہر شریعت تھا۔ اور حضرت خضر علیہ السلام مصالح شرعیہ کے علم کے ساتھ خاص حکموں پر مامور تھے، اسی لیے حضرت موسی علیہ السلام کو ان کے کام بظاہر خلاف شریعت معلوم ہوئے حالانکہ وہ خلاف شریعت نہ تھے۔ کشتی سے ایک تختہ کا نکالنا اس مصلحت کے تحت تھا کہ پیچھے سے ایک ظالم بادشاہ کشتیوں کو بیگار میں پکڑنے کے لیے چلا آ رہا تھا، اس نے اس کشتی کو عیب دار دیکھ کر چھوڑ دیا، جب وہ گزر گیا تو حضرت خضر علیہ السلام نے پھر اسے جوڑ دیا، بچے کا قتل اس لیے کہ حضرت خضر کو وحی الٰہی نے بتلا دیا تھا کہ یہ بچہ آئندہ چل کر اپنے والدین کے لیے سخت مضر ہوگا اس مصلحت کے تحت اس کا ختم کرنا ہی مناسب جانا۔ ایسا قتل شاید اس وقت کی شریعت میں جائز ہو پھر اللہ نے اس بچے کے والدین کو نیک بچے عطا کئے اور اچھا ہو گیا۔ دیوار کو اس لیے آپ نے سیدھا کیا کہ دو یتیم بچوں کا باپ انتقال کے وقت اپنے بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ دفن کر گیا وہ دیوار اگر گر جاتی تو لوگ یتیموں کا خزانہ لوٹ کر لے جاتے۔ اس مصلحت کے تحت آپ نے فوراً اس دیوار کو باذن اللہ سیدھا کردیا۔ حضرت موسیٰ اور خضر کے اس واقعہ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں، جن کی تفصیل نظر غائر والوں پر واضح ہوسکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Jubair (RA): I said to Ibn 'Abbas (RA), "Nauf-Al-Bakali claims that Moses (ؑ) (the companion of Khadir) was not the Moses (ؑ) of Bani Israel but he was another Moses (ؑ)." Ibn 'Abbas (RA) remarked that the enemy of Allah (Nauf) was a liar. Narrated Ubai bin Ka'b (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Once the Prophet (ﷺ) Moses (ؑ) stood up and addressed Bani Israel. He was asked, "Who is the most learned man amongst the people. He said, "I am the most learned." Allah admonished Moses (ؑ) as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So Allah inspired to him "At the junction of the two seas there is a slave amongst my slaves who is more learned than you." Moses (ؑ) said, "O my Lord! How can I meet him?" Allah said: Take a fish in a large basket (and proceed) and you will find him at the place where you will lose the fish. So Moses (ؑ) set out along with his (servant) boy, Yusha' bin Nuin and carried a fish in a large basket till they reached a rock, where they laid their heads (i.e. lay down) and slept. The fish came out of the basket and it took its way into the sea as in a tunnel. So it was an amazing thing for both Moses (ؑ) and his (servant) boy. They proceeded for the rest of that night and the following day. When the day broke, Moses (ؑ) said to his (servant) boy: "Bring us our early meal. No doubt, we have suffered much fatigue in this journey." Moses (ؑ) did not get tired till he passed the place about which he was told. There the (servant) boy told Moses (ؑ), "Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish." Moses (ؑ) remarked, "That is what we have been seeking. So they went back retracing their foot-steps, till they reached the rock. There they saw a man covered with a garment (or covering himself with his own garment). Moses (ؑ) greeted him. Al-Khadir replied saying, "How do people greet each other in your land?" Moses (ؑ) said, "I am Moses (ؑ)." He asked, "The Moses (ؑ) of Bani Israel?" Moses (ؑ) replied in the affirmative and added, "May I follow you so that you teach me of that knowledge which you have been taught." Al-Khadir replied, "Verily! You will not be able to remain patient with me, O Moses (ؑ)! I have some of the knowledge of Allah which He has taught me and which you do not know, while you have some knowledge which Allah has taught you which I do not know." Moses (ؑ) said, "Allah willing, you will find me patient and I will not disobey you in aught. So both of them set out walking along the sea-shore, as they did not have a boat. In the meantime a boat passed by them and they requested the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and took them on board without fare. Then a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice in the sea. Al-Khadir said: "O Moses (ؑ)! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak." Al-Khadir went to one of the planks of the boat and plucked it out. Moses (ؑ) said, "These people gave us a free lift but you have broken their boat and scuttled it so as to drown its people." Al-Khadir replied, "Didn't I tell you that you will not be able to remain patient with me." Moses (ؑ) said, "Call me not to account for what I forgot." The first (excuse) of Moses (ؑ) was that he had forgotten. Then they proceeded further and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boy's head from the top and plucked it out with his hands (i.e. killed him). Moses (ؑ) said, "Have you killed an innocent soul who has killed none." Al-Khadir replied, "Did I not tell you that you cannot remain patient with me?" Then they both proceeded till when they came to the people of a town, they asked them for food, but they refused to entertain them. Then they found there a wall on the point of collapsing. Al-Khadir repaired it with his own hands. Moses (ؑ) said, "If you had wished, surely you could have taken wages for it." Al-Khadir replied, "This is the parting between you and me." The Prophet (ﷺ) added, "May Allah be Merciful to Moses (ؑ)! Would that he could have been more patient to learn more about his story with Al-Khadir."