Sahi-Bukhari:
Actions while Praying
(Chapter: Thinking of something during As-Salat (the prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عمر ؓنے کہا کہ` میں نماز پڑھتا رہتا ہوں اور نماز ہی میں جہاد کے لیے اپنی فوج کا سامان کیا کرتا ہوں۔
1222.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اسے اذان کی آواز نہ سنائی دے۔ اور جب مؤذن خاموش ہو جاتا ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو بھاگ نکلتا ہے۔ جب مؤذن تکبیر سے خاموش ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے اور نمازی سے کہتا رہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو جو اسے یاد نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔‘‘ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: جب نمازی ایسی حالت سے دوچار ہو تو وہ بیٹھ کر دو سجدے (بطور سہو) کرے۔ اسے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔
تشریح:
اگر کوئی نمازی شیطانی وساوس کی بنا پر اس قسم کی سوچ و بچار میں پڑ جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیکہ نماز کا کوئی رکن ترک نہ ہو۔ اگر نماز کا کوئی رکن رہ جائے تو اس کا اعادہ ضروری ہے، اس کے ساتھ اسے سجدۂ سہو بھی کرنا ہو گا۔ (فتح الباري:118/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1192
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1222
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1222
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1222
تمہید کتاب
نماز کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے حضور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار اور اپنی بندگی اور محتاجی کا اعتراف کیا جائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور ایک امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نماز کے اجزائے عطیہ اصلیہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز کے تین عناصر ہیں:٭ مسلمان کا دل اللہ کی عظمت وہیبت اور رعب و جلال سے لبریز اور سر اس کے حضور جھکا ہو۔٭ اللہ کی عظمت اور اپنی بے چارگی کو بہتر الفاظ کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے۔٭ دیگر اعضاء کو بھی اللہ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کی شہادت کے لیے استعمال کیا جائے۔یقینا اس قسم کی نماز ہی نمازی کے لیے گناہوں کا کفارہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے: "جو مسلمان آدمی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر پورے خشوع و خضوع اور اچھے رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو ایسی نماز اس کے لیے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ نماز کی یہ برکت اس نمازی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حاصل ہوتی رہے گی۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:543(228)) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر پوری قلبی توجہ اور دلی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔" (صحیح مسلم،الطھارۃ،حدیث:553(234))ان احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز میں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کرے جو اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندے کے خشوع و خضوع کے منافی ہو لیکن بعض اوقات انسان نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو بظاہر نماز کے منافی ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوران نماز میں اس طرح کی حرکات و سکنات کی حدود و شرائط کو بیان کر دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے امام مجاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کسی قسم کے کام میں مصروف ہونے کی تین قسمیں ہیں:(1) بہت ہی کم نقل و حرکت ہو جیسا کہ آنکھ سے اشارہ یا بوقت ضرورت جسم کو کھجلانا۔ ایسی حرکت خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ اس سے نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔(2) اس سے کچھ زیادہ حرکات کا ارتکاب کرنا جیسا کہ نماز سے پھر جانا۔ ایسی حرکات اگر دانستہ ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہے، سہواً ایسا فعل سرزد ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔(3) زیادہ چلنا اور نماز چھوڑ کر مسجد سے نکل جانا وغیرہ۔ ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ ایسی حرکت غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدۃالقاری:3/583)صفوں کے درمیان شگاف پر کرنے کے لیے چند قدم چلنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا یا سجدے کی جگہ پر پڑی ہوئی چیز کو دور کرنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں دوران نماز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان کی تحدید مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو دیکھا جائے، جتنا عمل آپ سے ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زیادہ عمل کو نماز کے منافی خیال کیا جائے، ہاں! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لیے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لیے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا 32 احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) معلق اور چھبیس (26) موصول ہیں۔ پھر ان پر آپ نے اٹھارہ (18) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ ان احادیث میں تئیس (23) مکرر اور نو (9) خالص احادیث ہیں۔ چار (4) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ظاہری اعضاء کے افعال کے علاوہ دوران نماز میں کسی دوسرے معاملے میں غوروفکر کرنے کی مشروعیت کو بیان کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔بہرحال ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی سوچ کے متعلق پتہ چلے کہ وہ کس قدر مستحکم، مثبت اور مبنی بر حقیقت ہے۔ والله يهدي من يشاء إلی صراط مستقيم
تمہید باب
اس اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:2/198(طبع دارالکتب العلمیۃ)) واضح رہے کہ دوران نماز انسانی عقل و حرکت کی دو اقسام ہیں: ایک جسمانی، دوسری ذہنی۔ اگر یہ نقل و حرکت نماز سے متعلق ہے تو وہ عین مطلوب ہے جیسا کہ رکوع و سجود کرنا اور نماز پڑھتے وقت خشوع خضوع کو برقرار رکھنا۔ نماز کے منافی حرکات کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، خواہ وہ جسمانی ہوں یا ذہنی، البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر کوئی کام یا عمل یا غوروفکر کیا جائے جو نماز سے غیر متعلق ہے لیکن نماز کے منافی نہیں تو اسے شریعت نے کسی حد تک گوارا کیا ہے جیسا کہ قبل ازیں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اب امام بخاری رحمہ اللہ نے ذہنی نقل و حرکت کو بیان کیا ہے لیکن اس کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ دوران نماز غیر متعلق اشیاء پر اس قدر غوروخوض نہ ہو کہ سوچ بچار کرتے کرتے نماز کا کوئی رکن ہی چھوٹ جائے۔ اگر ایسی صورت حال ہو تو نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت میں ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے نماز مغرب پڑھائی تو اس میں قراءت نہ کی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے صورت حال سے آگاہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی تو آپ نے نماز دوبارہ پڑھائی اور اس میں قراءت فرمائی اور کہا: جس نماز میں قراءت نہ ہو وہ سرے سے منعقد نہیں ہوتی، دراصل میں دوران نماز لشکر کی تیاری میں مصروف ہو گیا جسے میں نے شام روانہ کرنا تھا۔ (فتح الباری:3/117)
اور عمر ؓنے کہا کہ` میں نماز پڑھتا رہتا ہوں اور نماز ہی میں جہاد کے لیے اپنی فوج کا سامان کیا کرتا ہوں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اسے اذان کی آواز نہ سنائی دے۔ اور جب مؤذن خاموش ہو جاتا ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے۔ پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو بھاگ نکلتا ہے۔ جب مؤذن تکبیر سے خاموش ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے اور نمازی سے کہتا رہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو جو اسے یاد نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔‘‘ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: جب نمازی ایسی حالت سے دوچار ہو تو وہ بیٹھ کر دو سجدے (بطور سہو) کرے۔ اسے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اگر کوئی نمازی شیطانی وساوس کی بنا پر اس قسم کی سوچ و بچار میں پڑ جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیکہ نماز کا کوئی رکن ترک نہ ہو۔ اگر نماز کا کوئی رکن رہ جائے تو اس کا اعادہ ضروری ہے، اس کے ساتھ اسے سجدۂ سہو بھی کرنا ہو گا۔ (فتح الباري:118/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں (بعض دفعہ) دوران نماز میں جہاد کے لیے لشکر کو تیار کرتا رہتا ہوں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے، ان سے جعفربن ربیعہ نے اور ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کر ریاح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے۔ جب مؤذن چپ ہو جاتا ہے تو مردود پھر آ جاتا ہے اور جب جماعت کھڑی ہونے لگتی ہے (اور تکبیر کہی جاتی ہے) تو پھر بھاگ جاتا ہے۔ لیکن جب مؤذن چپ ہو جاتا ہے تو پھر آ جاتا ہے۔ اور آدمی کے دل میں برابر وساوس پیدا کرتا رہتا ہے۔ کہتا ہے کہ (فلاں فلاں بات) یاد کر۔ کم بخت وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو اس نمازی کے ذہن میں بھی نہ تھیں۔ اس طرح نمازی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے کہا کہ جب کوئی یہ بھول جائے (کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) تو بیٹھے بیٹھے (سہو کے) دو سجدے کر لے۔ ابو سلمہ نے یہ ابو ہریرہ ؓ سے سنا تھا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نماز میں شیطان وساوس کے لیے پوری کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اس بارے میں انسان مجبور ہے۔ پس جب نماز کے اندر شیطانی وساوس کی وجہ سے یہ نہ معلوم رہے کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہوں تو یقین پر بنا رکھے، اگر اس کے فہم میں نماز پوری نہ ہو تو پوری کر کے سہو کے دو سجدے کر لے۔ (قسطلاني)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) , Allah's Apostle (ﷺ) said, "When the Adhan for the prayer is pronounced, then Satan takes to his heels passing wind so that he may not hear the Adhan and when the Muadh-dhin finishes, he comes back; and when the Iqama is pronounced he again takes to his heels and when it is finished, he again comes back and continues reminding the praying person of things that he used not to remember when not in prayer till he forgets how much he has prayed." Abu Salama bin 'Abdur-Rahman said, "If anyone of you has such a thing (forgetting the number of Rakat he has prayed) he should perform two prostrations of Sahu (i.e. forgetfulness) while sitting." Abu Salama narrates this from Abu Hurairah (RA) . ________