Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: If one offers five Rak'a (instead of four))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1226.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ ظہر کی پانچ رکعات پڑھیں۔ آپ سے عرض کیا گیا: آیا نماز میں کچھ اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ کیا؟‘‘ عرض کیا گیا: آپ نے پانچ رکعات پڑھی ہیں۔ تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے۔
تشریح:
مذکورہ حدیث میں دوران نماز اضافے کی صورت بیان ہوئی ہے کہ اگر نماز میں کمی واقع ہو تو سلام سے پہلے سجدۂ سہو کیا جائے اور اگر کچھ اضافہ ہو جائے تو سلام کے بعد سجدۂ سہو ادا ہونا چاہیے۔ امام احمد ؒ کا موقف ہے کہ ہر حدیث کو اس کے محل میں استعمال کیا جائے اور جس بھول کی صورت میں کوئی حدیث نہ مل سکے تو وہاں سلام سے پہلے سجدۂ سہو کیا جائے، تاہم اس کے متعلق تفصیل ہم آئندہ حدیث: 1227 کے تحت بیان کریں گے، البتہ نماز میں اضافے کی صورت میں مسائل و احکام کو ہم بیان کرتے ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ لکھتے ہیں: ٭ اگر نمازی نے اپنی نماز میں دانستہ طور پر قیام، جلوس، رکوع یا سجدے کا اضافہ کیا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہے، کیونکہ اس نے صراحت کے ساتھ شریعت کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر بھول کر نماز میں اضافہ کیا ہے تو اس کی مندرجہ ذیل دو صورتیں ہیں: ٭ نماز سے فراغت تک اسے اضافہ یاد نہیں آیا۔ اس صورت میں اس کے ذمے صرف سجدۂ سہو کرنا ہے، مثلاً: ایک شخص نے ظہر کی پانچ رکعت پڑھ لیں، لیکن اضافے کا علم اس وقت ہوا جب وہ تشہد میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایسے حالات میں وہ تشہد پورا کرے اور سلام پھیرنے کے بعد سجدۂ سہو کرے۔ اس کے بعد دوبارہ سلام پھیرے۔ اگر اضافے کا علم سلام پھیرنے کے بعد ہوا ہے تب بھی اس کے ذمے سجدۂ سہو کرنا اور اس کے بعد سلام پھیرنا ہے۔ ٭ اگر اضافے کا علم پانچویں رکعت کے دوران میں ہوا تو اسی وقت بیٹھ جائے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے، مثلاً: ایک شخص نے ظہر کی پانچ رکعت ادا کیں اور پانچویں رکعت ادا کرتے ہوئے دوران قیام میں اسے اضافے کا علم ہو گیا تو وہ فوراً بیٹھ کر تشہد پورا کر کے سلام پھیرے، پھر سجدۂ سہو کرنے کے بعد دوبارہ سلام پھیرے۔ دوران نماز میں سلام پھیرنا بھی اضافے ہی کی ایک صورت ہے، کیونکہ نمازی نے اپنی نماز میں ایک سلام کا اضافہ کر دیا ہے۔ اگر نمازی نے دانستہ ایسا کیا ہے تو اس کی نماز باطل ہے، اگر بھول کر ایسا ہوا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں: ٭ نمازی نے بھول کر سلام پھیر دیا، لیکن اسے کافی دیر بعد اس غلطی کا احساس ہوا تو اسے ازسرنو نماز پڑھنا ہو گی، مثلاً: ایک شخص نے نماز عصر ادا کرتے ہوئے دو رکعت پر سلام پھیر دیا، کافی دیر بعد اسے اپنی غلطی کا علم ہوا تو اس صورت میں اسے نماز عصر دوبارہ پڑھنی ہو گی۔ ٭ اگر بھول کر سلام پھیرنے کے ایک دو منٹ بعد اسے پتہ چل گیا تو بقیہ نماز کو ادا کرے، پھر وہ سلام پھیرے۔ آخر میں دو سجدے کر کے دوبارہ سلام پھیرے، مثلاً: ایک شخص نے نماز عصر ادا کرتے ہوئے دو رکعت پر سلام پھیر دیا لیکن اسے فوراً بعد اپنی غلطی کا پتہ چل گیا تو اسے چاہیے کہ وہ بقیہ دو رکعت ادا کرے اور سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔ اس کی دلیل حدیث: 1227 ہے جو آگے آ رہی ہے۔ وہاں اس کے متعلق مزید تفصیل بیان کی جائے گی۔ ٭ اگر امام نے نماز مکمل ہونے سے پہلے بھول کر سلام پھیر دیا، اس کے پیچھے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کی نماز کا کچھ حصہ رہ گیا تھا اور وہ اپنی بقیہ نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے، اس وقت امام کو یاد آیا کہ اس نے نامکمل نماز پر سلام پھیر دیا تھا، وہ اسے مکمل کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا تو اب بقیہ نماز ادا کرنے والوں کو اختیار ہے کہ دو دو باتوں میں سے ایک کو اپنائیں: ٭ وہ اپنی نماز کو جاری رکھیں اور فراغت کے بعد سجدۂ سہو کر لیں۔ ٭ امام کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کر کے اس کی متابعت کریں۔ جب وہ سلام پھیر دے تو اپنی بقیہ نماز کو پورا کر لیں، سلام پھیر کر سجدۂ سہو کریں، پھر دوبارہ سلام پھیریں۔ یہ آخری صورت زیادہ بہتر اور احتیاط والی ہے۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1196
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1226
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1226
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1226
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ ظہر کی پانچ رکعات پڑھیں۔ آپ سے عرض کیا گیا: آیا نماز میں کچھ اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ کیا؟‘‘ عرض کیا گیا: آپ نے پانچ رکعات پڑھی ہیں۔ تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ حدیث میں دوران نماز اضافے کی صورت بیان ہوئی ہے کہ اگر نماز میں کمی واقع ہو تو سلام سے پہلے سجدۂ سہو کیا جائے اور اگر کچھ اضافہ ہو جائے تو سلام کے بعد سجدۂ سہو ادا ہونا چاہیے۔ امام احمد ؒ کا موقف ہے کہ ہر حدیث کو اس کے محل میں استعمال کیا جائے اور جس بھول کی صورت میں کوئی حدیث نہ مل سکے تو وہاں سلام سے پہلے سجدۂ سہو کیا جائے، تاہم اس کے متعلق تفصیل ہم آئندہ حدیث: 1227 کے تحت بیان کریں گے، البتہ نماز میں اضافے کی صورت میں مسائل و احکام کو ہم بیان کرتے ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ لکھتے ہیں: ٭ اگر نمازی نے اپنی نماز میں دانستہ طور پر قیام، جلوس، رکوع یا سجدے کا اضافہ کیا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہے، کیونکہ اس نے صراحت کے ساتھ شریعت کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر بھول کر نماز میں اضافہ کیا ہے تو اس کی مندرجہ ذیل دو صورتیں ہیں: ٭ نماز سے فراغت تک اسے اضافہ یاد نہیں آیا۔ اس صورت میں اس کے ذمے صرف سجدۂ سہو کرنا ہے، مثلاً: ایک شخص نے ظہر کی پانچ رکعت پڑھ لیں، لیکن اضافے کا علم اس وقت ہوا جب وہ تشہد میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایسے حالات میں وہ تشہد پورا کرے اور سلام پھیرنے کے بعد سجدۂ سہو کرے۔ اس کے بعد دوبارہ سلام پھیرے۔ اگر اضافے کا علم سلام پھیرنے کے بعد ہوا ہے تب بھی اس کے ذمے سجدۂ سہو کرنا اور اس کے بعد سلام پھیرنا ہے۔ ٭ اگر اضافے کا علم پانچویں رکعت کے دوران میں ہوا تو اسی وقت بیٹھ جائے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے، مثلاً: ایک شخص نے ظہر کی پانچ رکعت ادا کیں اور پانچویں رکعت ادا کرتے ہوئے دوران قیام میں اسے اضافے کا علم ہو گیا تو وہ فوراً بیٹھ کر تشہد پورا کر کے سلام پھیرے، پھر سجدۂ سہو کرنے کے بعد دوبارہ سلام پھیرے۔ دوران نماز میں سلام پھیرنا بھی اضافے ہی کی ایک صورت ہے، کیونکہ نمازی نے اپنی نماز میں ایک سلام کا اضافہ کر دیا ہے۔ اگر نمازی نے دانستہ ایسا کیا ہے تو اس کی نماز باطل ہے، اگر بھول کر ایسا ہوا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں: ٭ نمازی نے بھول کر سلام پھیر دیا، لیکن اسے کافی دیر بعد اس غلطی کا احساس ہوا تو اسے ازسرنو نماز پڑھنا ہو گی، مثلاً: ایک شخص نے نماز عصر ادا کرتے ہوئے دو رکعت پر سلام پھیر دیا، کافی دیر بعد اسے اپنی غلطی کا علم ہوا تو اس صورت میں اسے نماز عصر دوبارہ پڑھنی ہو گی۔ ٭ اگر بھول کر سلام پھیرنے کے ایک دو منٹ بعد اسے پتہ چل گیا تو بقیہ نماز کو ادا کرے، پھر وہ سلام پھیرے۔ آخر میں دو سجدے کر کے دوبارہ سلام پھیرے، مثلاً: ایک شخص نے نماز عصر ادا کرتے ہوئے دو رکعت پر سلام پھیر دیا لیکن اسے فوراً بعد اپنی غلطی کا پتہ چل گیا تو اسے چاہیے کہ وہ بقیہ دو رکعت ادا کرے اور سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔ اس کی دلیل حدیث: 1227 ہے جو آگے آ رہی ہے۔ وہاں اس کے متعلق مزید تفصیل بیان کی جائے گی۔ ٭ اگر امام نے نماز مکمل ہونے سے پہلے بھول کر سلام پھیر دیا، اس کے پیچھے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کی نماز کا کچھ حصہ رہ گیا تھا اور وہ اپنی بقیہ نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے، اس وقت امام کو یاد آیا کہ اس نے نامکمل نماز پر سلام پھیر دیا تھا، وہ اسے مکمل کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا تو اب بقیہ نماز ادا کرنے والوں کو اختیار ہے کہ دو دو باتوں میں سے ایک کو اپنائیں: ٭ وہ اپنی نماز کو جاری رکھیں اور فراغت کے بعد سجدۂ سہو کر لیں۔ ٭ امام کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کر کے اس کی متابعت کریں۔ جب وہ سلام پھیر دے تو اپنی بقیہ نماز کو پورا کر لیں، سلام پھیر کر سجدۂ سہو کریں، پھر دوبارہ سلام پھیریں۔ یہ آخری صورت زیادہ بہتر اور احتیاط والی ہے۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر میں پانچ رکعت پڑھ لیں۔ اس لیے آپ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز کی رکعتیں زیادہ ہوگئی ہیں؟ اپ نے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ کہنے والے نے کہا کہ آپ ﷺ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے سلام کے بعد دو سجدے کئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated' Abdullah (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) offered five Rakat in the Zuhr prayer, and somebody asked him whether there was some increase in the prayer. Allah's Apostle (ﷺ) said, "What is that?" He said, "You have offered five Rakat." So Allah's Apostle (ﷺ) performed two prostrations of Sahu after Taslim. ________