Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: To say Takbir in the prostrations of Sahw)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1230.
حضرت عبداللہ ابن بحینہ اسدی ؓ، جو بنو عبدالمطلب کے حلیف تھے،سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے جبکہ آپ کو بیٹھ کر تشہد پڑھنا تھا۔ جب آپ نماز مکمل کرنے قریب تھے تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے قبل دو سجدے کیے اور ان کے لیے اللہ أکبر بھی کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ کے ساتھ یہ دو سجدے کیے۔ یہ اس تشہد کی جگہ تھے جسے آپ بھول گئے تھے۔ امام ابن شہاب سے تکبیر کا لفظ بیان کرنے میں ابن جریج نے لیث کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ سجدۂ سہو کے لیے الگ سے تکبیر تحریمہ کہنے کی ضرورت نہیں، بلکہ سجدے کو جاتے ہوئے ایک دفعہ اللہ أکبر کہنا ہی کافی ہے۔ تکبیر تحریمہ کہنے کے متعلق سنن ابی داود کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر اللہ أکبر کہا اور سجدۂ سہو کیا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1011) لیکن امام ابو داود ؒ نے خود ہی اس روایت کے شاذ ہونے کی طرف واضح اشارہ فرمایا ہے کہ ان الفاظ کو حماد بن زید کے علاوہ دوسرے راویوں نے بیان نہیں کیا۔ ہشام بن حسان سے ان کے دوسرے شاگرد جب اس روایت کو بیان کرتے ہیں تو وہ مذکورہ الفاظ ذکر نہیں کرتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1011) (2) ابن جریج کی متابعت کو امام عبدالرزاق نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر سجدۂ سہو میں اللہ أکبر کہتے تھے۔ مسند امام احمد کی روایت بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر سجدہ کیا۔ اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور دوسرا سجدہ کیا۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیر دیا۔ ان تمام روایات میں صرف سجدہ کرتے وقت تکبیر کہنے کا ذکر ہے، تکبیر تحریمہ کا کوئی ذکر نہیں۔ اور جن روایات میں پہلے سجدے سے قبل دو دفعہ اللہ أکبر کہنے کا ذکر ہے وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔ (فتح الباري:134/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1200
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1230
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1230
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1230
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
تمہید باب
بعض حضرات کا موقف ہے کہ جب سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کیے جائیں تو ان کے لیے پہلے تکبیر تحریمہ کہی جائے، پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کے موقف کو اختیار کیا ہے کہ اس کے لیے سجدے کی تکبیر ہی کافی ہے، الگ سے تکبیر تحریمہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
حضرت عبداللہ ابن بحینہ اسدی ؓ، جو بنو عبدالمطلب کے حلیف تھے،سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے جبکہ آپ کو بیٹھ کر تشہد پڑھنا تھا۔ جب آپ نماز مکمل کرنے قریب تھے تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے قبل دو سجدے کیے اور ان کے لیے اللہ أکبر بھی کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ کے ساتھ یہ دو سجدے کیے۔ یہ اس تشہد کی جگہ تھے جسے آپ بھول گئے تھے۔ امام ابن شہاب سے تکبیر کا لفظ بیان کرنے میں ابن جریج نے لیث کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ سجدۂ سہو کے لیے الگ سے تکبیر تحریمہ کہنے کی ضرورت نہیں، بلکہ سجدے کو جاتے ہوئے ایک دفعہ اللہ أکبر کہنا ہی کافی ہے۔ تکبیر تحریمہ کہنے کے متعلق سنن ابی داود کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر اللہ أکبر کہا اور سجدۂ سہو کیا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1011) لیکن امام ابو داود ؒ نے خود ہی اس روایت کے شاذ ہونے کی طرف واضح اشارہ فرمایا ہے کہ ان الفاظ کو حماد بن زید کے علاوہ دوسرے راویوں نے بیان نہیں کیا۔ ہشام بن حسان سے ان کے دوسرے شاگرد جب اس روایت کو بیان کرتے ہیں تو وہ مذکورہ الفاظ ذکر نہیں کرتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1011) (2) ابن جریج کی متابعت کو امام عبدالرزاق نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر سجدۂ سہو میں اللہ أکبر کہتے تھے۔ مسند امام احمد کی روایت بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر سجدہ کیا۔ اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور دوسرا سجدہ کیا۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیر دیا۔ ان تمام روایات میں صرف سجدہ کرتے وقت تکبیر کہنے کا ذکر ہے، تکبیر تحریمہ کا کوئی ذکر نہیں۔ اور جن روایات میں پہلے سجدے سے قبل دو دفعہ اللہ أکبر کہنے کا ذکر ہے وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔ (فتح الباري:134/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے، ان سے عبد اللہ بن بحینہ اسدی نے جو بنو عبد المطلب کے حلیف تھے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں قعدہ اولیٰ کئے بغیر کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ اس وقت آپ کوبیٹھنا چاہئے تھا۔ جب آپ نے نماز پوری کی تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے پہلے دو سجدے سہو کے کئے اور ہر سجدے میں اللہ أکبر کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ کے ساتھ یہ دو سجدے کئے۔ آپ بیٹھنا بھول گئے تھے، اس لیے یہ سجدے اسی کے بدلہ میں کئے تھے۔ اس روایت کی مطابعت ابن جریج نے ابن شہاب سے تکبیر کے ذکر میں کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Buhaina Al-Asdi (RA): (the ally of Bani 'Abdul Muttalib) Allah's Apostle (ﷺ) stood up for the Zuhr prayer and he should have sat (after the second Raka but he stood up for the third Raka without sitting for Tashah-hud) and when he finished the prayer he performed two prostrations and said Takbir on each prostration while sitting, before ending (the prayer) with Taslim; and the people too performed the two prostrations with him instead of the sitting he forgot. ________