باب: اگر کسی نمازی کو یہ یاد نہ رہے کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو وہ سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے ہی دو سجدے کر لے۔
)
Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: When a person forgets whether he has offered three or four Rak'a)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1231.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے اور (اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان کی آواز نہیں سن پاتا۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے اور جب تکبیر کہی جاتی ہے تو پھر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر پوری ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ کر نمازی اور اس کے دل میں وسوسہ اندازی کرتا ہے اور کہتا ہے: فلاں فلاں چیز یاد کرو، جو اسے پہلے یاد نہیں ہوتی، حتی کہ نماز ایسا ہو جاتا ہے کہ نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، اس لیے اگر تم میں سے کسی کو معلوم نہ رہے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں محل سجود کی تعیین نہیں کہ وہ سلام سے پہلے ہیں یا بعد میں، اس کی وضاحت ایک اور روایت میں ہے جسے امام دارقطنی ؒ نے بیان کیا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو دوران نماز میں سہو ہو جائے اور اسے پتہ نہ چل سکے کہ زیادہ رکعات پڑھی ہیں یا کم تو اسے چاہیے کہ سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے۔ (فتح الباري:135/3) اس روایت سے معلوم ہوا کہ شک کی صورت میں اسے سلام سے پہلے دو سجدے کرنے چاہئیں۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:401) (2) دوران نماز شک گزرنے کی صورت میں کچھ تفصیل ہے، اگر نمازی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ درستی کی کوشش کرے اور اپنی مستحکم رائے پر نماز کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے پورا کرے اور سلام پھیر دے۔ سلام کے بعد آخر میں سہو کے دو سجدے کر لے۔ (سنن دارقطني:40/2، طبع دارالمعرفة) درست رائے واضح نہ ہو سکے تو شک والی رکعت کو نظرانداز کر دے اور جتنی رکعات یقینی ہیں، انہیں شمار کرے اور یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے بقیہ نماز پوری کرے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کسی کو دوران نماز میں شک پڑ جائے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو شک کو نظر انداز کر دے اور یقین پر نماز کی بنیاد رکھے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے۔ اگر اس نے پانچ رکعات پڑھی ہوں گی تو یہ سجدے چھٹی رکعت کے قائم مقام ہو جائیں گے۔ اور اگر اس نے پوری نماز (چار رکعت) ہی پڑھی ہے تو یہ دو سجدے شیطان کی ذلت اور رسوائی کا باعث ہوں گے۔‘‘(صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1272(571)) اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے علم نہ ہو کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو، تو وہ اپنی نماز کو ایک رکعت ہی بنا لے۔ اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے دو رکعت پڑھی ہیں یا تین تو وہ اپنی نماز کو دو رکعت ہی بنا لے۔ اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو وہ اسے تین رکعت ہی بنا لے۔ پھر جب وہ نماز سے فراغت کے قریب ہو تو سلام پھیرنے سے قبل بیٹھے بیٹھے ہی سہو کے دو سجدے کرے۔‘‘ (مسندأحمد:190/1) (3) دوران نماز میں شک پڑنے کی صورت میں شیخ محمد بن صالح عثیمین کی تحقیق حسب ذیل ہے: دو معاملات کے درمیان تردد کو شک کہتے ہیں کہ کون سا معاملہ واقع ہے۔ درج ذیل تین حالات میں شک کو کوئی اہمیت نہ دی جائے: ٭ دوران نماز میں محض وہم پیدا ہوا جس کی کوئی حقیقت نہ ہو، جیسا کہ وسوسہ وغیرہ ہوتا ہے۔ ٭ جب نمازی کو بکثرت وہم کی بیماری لاحق ہوتی ہے کہ جب بھی نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ٭ عبادت سے فراغت کے بعد شک پڑ جائے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے جب تک اسے یقین نہ ہو جائے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ اگر دوران نماز شک پڑ جائے تو وہ قابل اعتبار ہو گا اور اس کی دو حالتیں ممکن ہیں: ٭ نمازی کا رجحان ایک طرف ہو، اس صورت میں اپنے رجحان کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیرے، پھر دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، مثلاً ایک نمازی کو نماز ظہر پڑھتے ہوئے شک پڑا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن رجحان تیسری رکعت کی طرف ہے تو اسے تیسری قرار دے کر اپنی نماز پوری کرے، یعنی چوتھی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اس کے بعد دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث: 401) میں ہے۔ ٭ اگر نمازی کا رجحان کسی جانب نہیں ہے تو وہ شک کو نظر انداز کر کے یقین پر بنیاد رکھے جو کہ کم رکعات پر بنیاد ہو گی۔ پھر نماز مکمل کر کے سلام سے قبل دو سہو کے سجدے ادا کرے اور سلام پھیر دے، مثلاً: ایک نمازی کو نماز عصر پڑھتے ہوئے شک گزرا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن اس کا رجحان کسی جانب نہیں تو کم رکعات پر بنیاد رکھے، یعنی اسے دوسری قرار دے کر پہلا تشہد پڑھے، اس کے بعد دو رکعات پڑھے، پھر سلام سے قبل سہو کے دو سجدے کرے اور سلام پھیر دے، جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث: 1272 (571)) میں ہے۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1201
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1231
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1231
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1231
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے اور (اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان کی آواز نہیں سن پاتا۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے اور جب تکبیر کہی جاتی ہے تو پھر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر پوری ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ کر نمازی اور اس کے دل میں وسوسہ اندازی کرتا ہے اور کہتا ہے: فلاں فلاں چیز یاد کرو، جو اسے پہلے یاد نہیں ہوتی، حتی کہ نماز ایسا ہو جاتا ہے کہ نہیں جانتا اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، اس لیے اگر تم میں سے کسی کو معلوم نہ رہے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو بیٹھے بیٹھے دو سہو کے سجدے کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں محل سجود کی تعیین نہیں کہ وہ سلام سے پہلے ہیں یا بعد میں، اس کی وضاحت ایک اور روایت میں ہے جسے امام دارقطنی ؒ نے بیان کیا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو دوران نماز میں سہو ہو جائے اور اسے پتہ نہ چل سکے کہ زیادہ رکعات پڑھی ہیں یا کم تو اسے چاہیے کہ سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے۔ (فتح الباري:135/3) اس روایت سے معلوم ہوا کہ شک کی صورت میں اسے سلام سے پہلے دو سجدے کرنے چاہئیں۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:401) (2) دوران نماز شک گزرنے کی صورت میں کچھ تفصیل ہے، اگر نمازی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ درستی کی کوشش کرے اور اپنی مستحکم رائے پر نماز کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے پورا کرے اور سلام پھیر دے۔ سلام کے بعد آخر میں سہو کے دو سجدے کر لے۔ (سنن دارقطني:40/2، طبع دارالمعرفة) درست رائے واضح نہ ہو سکے تو شک والی رکعت کو نظرانداز کر دے اور جتنی رکعات یقینی ہیں، انہیں شمار کرے اور یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے بقیہ نماز پوری کرے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کسی کو دوران نماز میں شک پڑ جائے کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین یا چار؟ تو شک کو نظر انداز کر دے اور یقین پر نماز کی بنیاد رکھے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے۔ اگر اس نے پانچ رکعات پڑھی ہوں گی تو یہ سجدے چھٹی رکعت کے قائم مقام ہو جائیں گے۔ اور اگر اس نے پوری نماز (چار رکعت) ہی پڑھی ہے تو یہ دو سجدے شیطان کی ذلت اور رسوائی کا باعث ہوں گے۔‘‘(صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1272(571)) اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے علم نہ ہو کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو، تو وہ اپنی نماز کو ایک رکعت ہی بنا لے۔ اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے دو رکعت پڑھی ہیں یا تین تو وہ اپنی نماز کو دو رکعت ہی بنا لے۔ اور اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس نے تین پڑھی ہیں یا چار تو وہ اسے تین رکعت ہی بنا لے۔ پھر جب وہ نماز سے فراغت کے قریب ہو تو سلام پھیرنے سے قبل بیٹھے بیٹھے ہی سہو کے دو سجدے کرے۔‘‘ (مسندأحمد:190/1) (3) دوران نماز میں شک پڑنے کی صورت میں شیخ محمد بن صالح عثیمین کی تحقیق حسب ذیل ہے: دو معاملات کے درمیان تردد کو شک کہتے ہیں کہ کون سا معاملہ واقع ہے۔ درج ذیل تین حالات میں شک کو کوئی اہمیت نہ دی جائے: ٭ دوران نماز میں محض وہم پیدا ہوا جس کی کوئی حقیقت نہ ہو، جیسا کہ وسوسہ وغیرہ ہوتا ہے۔ ٭ جب نمازی کو بکثرت وہم کی بیماری لاحق ہوتی ہے کہ جب بھی نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ٭ عبادت سے فراغت کے بعد شک پڑ جائے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے جب تک اسے یقین نہ ہو جائے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ اگر دوران نماز شک پڑ جائے تو وہ قابل اعتبار ہو گا اور اس کی دو حالتیں ممکن ہیں: ٭ نمازی کا رجحان ایک طرف ہو، اس صورت میں اپنے رجحان کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیرے، پھر دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، مثلاً ایک نمازی کو نماز ظہر پڑھتے ہوئے شک پڑا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن رجحان تیسری رکعت کی طرف ہے تو اسے تیسری قرار دے کر اپنی نماز پوری کرے، یعنی چوتھی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اس کے بعد دو سہو کے سجدے کرے اور سلام پھیرے، جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث: 401) میں ہے۔ ٭ اگر نمازی کا رجحان کسی جانب نہیں ہے تو وہ شک کو نظر انداز کر کے یقین پر بنیاد رکھے جو کہ کم رکعات پر بنیاد ہو گی۔ پھر نماز مکمل کر کے سلام سے قبل دو سہو کے سجدے ادا کرے اور سلام پھیر دے، مثلاً: ایک نمازی کو نماز عصر پڑھتے ہوئے شک گزرا کہ اس کی دوسری رکعت ہے یا تیسری لیکن اس کا رجحان کسی جانب نہیں تو کم رکعات پر بنیاد رکھے، یعنی اسے دوسری قرار دے کر پہلا تشہد پڑھے، اس کے بعد دو رکعات پڑھے، پھر سلام سے قبل سہو کے دو سجدے کرے اور سلام پھیر دے، جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث: 1272 (571)) میں ہے۔ (سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذبن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحیٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابو سلمہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان ہوتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتا ہوابھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سنے، جب اذان پوری ہو جاتی ہے تو پھر آجاتا ہے۔ پھرجب اقامت ہوتی ہے تو پھر بھاگ پڑتا ہے۔ لیکن اقامت ختم ہوتے ہی پھر آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں فلاں بات یاد کرو، اس طرح اسے وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو اس کے ذہن میں نہیں تھیں۔ لیکن دوسری طرف نمازی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں اس نے پڑھی ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو یہ یاد نہ رہے کہ تین رکعت پڑھیں یا چار تو بیٹھے ہی بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی جس کو اس قدر بے انداز وسوسے پڑتے ہوں اس کے لیے صرف سہو کے دو سجدے کافی ہیں۔ حسن بصری اور سلف کا ایک گروہ اسی طرف گئے ہیں کہ اس حدیث سے کثیر الوساوس آدمی مراد ہے اورامام بخاری ؒ کے باب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (للعلامة الغزنوي) اور امام مالک ؒ ، شافعی ؒ اور امام احمد ؒ اس حدیث کو مسلم وغیرہ کی حدیث پر حمل کرتے ہیں جو ابو سعید ؓ سے مروی ہے کہ اگر شک دو یا تین میں ہے تو دو سمجھے اور اگر تین یاچار میں ہے تو تین سمجھے۔ بقیہ کو پڑھ کرسہو کے دو سجدے سلام سے پہلے دے دے۔ (نصر الباري، ج:1ص:447)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "When the call for prayer is made, Satan takes to his heels passing wind so that he may not hear the Adhan and when the call is finished he comes back, and when the Iqama is pronounced, Satan again takes to his heels, and when the Iqama is finished he comes back again and tries to interfere with the person and his thoughts and say, "Remember this and that (which he has not thought of before the prayer)", till the praying person forgets how much he has prayed. If anyone of you does not remember whether he has offered three or four Rakat then he should perform two prostrations of Sahu while sitting. ________