Sahi-Bukhari:
Forgetfulness in Prayer
(Chapter: Beckoning during the Salat [by a person in Salat])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ کریب نے ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے نقل کیا، انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
1236.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی جبکہ آپ بیمار تھے۔ آپ کی اقتدا میں لوگوں نے کھڑے ہو کر نماز شروع کی تو آپ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔‘‘
تشریح:
ان احادیث سے بھی امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی، چنانچہ حضرت اسماء ؓ سے مروی حدیث میں حضرت عائشہ ؓ نے دوران نماز میں دو مرتبہ اپنے سر سے اشارہ فرمایا۔ اسی طرح آخری حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز لوگوں کو اشارہ کیا کہ بیٹھ کر نماز پڑھو۔ واضح رہے کہ مرضِ وفات کے وقت نماز پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایسے حالات میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم منسوخ ہو چکا ہے، کیونکہ اس وقت آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ مقتدی حضرات نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی۔ اس کی وضاحت ہم پہلے کر آئے ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی تردید ہے جو دوران نماز میں اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دینے کو منع کہتے ہیں، کیونکہ اگر لوگوں کو اشارے سے بیٹھنے کا حکم دیا جا سکتا ہے تو اشارے سے سلام کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ (فتح الباري:140/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1206
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1236
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1236
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1236
تمہید کتاب
سہو کے لغوی معنی بھول جانا، غافل ہو جانا یا دل کا کسی دوسری جانب متوجہ ہو جانا ہیں۔ لفظ نسیان اس کے مترادف ہے لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں معمولی سا فرق کیا ہے کہ سہو میں انسانی شعور بالکل ختم ہو جاتا ہے جبکہ نسیان میں یکسر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فرق کی کوئی حیثیت نہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد وہ دو دو سجدے ہیں جو دوران نماز میں بھول کر کمی بیشی ہو جانے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں:٭ بھول کر نماز میں کمی کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے دو پر سلام پھیر دینا۔٭ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا، جیسے ظہر کی چار رکعات کے بجائے پانچ رکعات پڑھ دینا۔٭ دوران نماز شک و شبہ میں مبتلا ہو جانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان آپ بھی دوران نماز میں بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: "میں تو بس ایک انسان ہی ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔" (صحیح البخاری،الصلاۃ،حدیث:401)اس سہو و نسیان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) (البقرۃ286:2) "اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کا شکار ہو جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔" نیز صحیح حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله وضع عن امتي الخطا والنسيان) (سنن ابن ماجہ،الطلاق،حدیث:2045) "بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی اور بھول چوک کو معاف فرما دیا ہے ۔۔"تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے نماز میں واقع ہونے والے نقص کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو سجدوں کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز میں پانچ چھ مرتبہ بھول کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عملی طور پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ کتب احادیث میں آپ کے دوران نماز میں بھول جانے کی تفصیل اس طرح ہے:(1) نماز عصر میں چار کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1229)(2) نماز ظہر میں چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث1226)(3) نماز ظہر میں درمیانہ تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1225)(4) نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1293(574))(5) نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاری،السھو،حدیث:1227)الغرض سجدۂ سہو کے احکام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بعض حضرات ایسے مقام پر سجدۂ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسی جگہ سجدۂ سہو کر دیا جاتا ہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر بعض اوقات انہیں سلام سے پہلے کرنا ہوتا ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام پھیرنے کے بعد انہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہماری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے اس بڑے عنوان کے تحت تقریباً انیس (19) احادیث بیان کی ہیں: ان میں دو (2) معلق ہیں اور باقی سترہ (17) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عنوان کے تحت بیان کردہ تمام احادیث مکرر ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ (5) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نو (9) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سجدۂ سہو سے متعلقہ مسائل و احکام کا ذکر ہے جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰقارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کی اصلاح فرمائے۔ آمین
تمہید باب
قبل ازیں باب میں کسی کی بات بغور سن کر دوران نماز میں اشارہ کرنا بیان ہوا تھا گویا وہ مرتب اشارہ تھا۔ اس باب میں عام اشارے کا بیان ہے، خواہ وہ مرتبہ ہو یا غیر مرتبہ۔ اس سلسلے میں حضرت کریب کی حدیث کو بیان کیا گیا ہے جو ابھی ابھی متصل سند سے بیان کی گئی ہے۔ (فتح الباری:3/140)
یہ کریب نے ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے نقل کیا، انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی جبکہ آپ بیمار تھے۔ آپ کی اقتدا میں لوگوں نے کھڑے ہو کر نماز شروع کی تو آپ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے بھی امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی، چنانچہ حضرت اسماء ؓ سے مروی حدیث میں حضرت عائشہ ؓ نے دوران نماز میں دو مرتبہ اپنے سر سے اشارہ فرمایا۔ اسی طرح آخری حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز لوگوں کو اشارہ کیا کہ بیٹھ کر نماز پڑھو۔ واضح رہے کہ مرضِ وفات کے وقت نماز پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایسے حالات میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم منسوخ ہو چکا ہے، کیونکہ اس وقت آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ مقتدی حضرات نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی۔ اس کی وضاحت ہم پہلے کر آئے ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی تردید ہے جو دوران نماز میں اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دینے کو منع کہتے ہیں، کیونکہ اگر لوگوں کو اشارے سے بیٹھنے کا حکم دیا جا سکتا ہے تو اشارے سے سلام کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ (فتح الباري:140/3)
ترجمۃ الباب:
اس بات کو حضرت کریب نے ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺسے بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ بیمارتھے۔ اس لیے آپ ﷺ نے گھر ہی میں بیٹھ کر نماز پڑھی لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ لیکن آپ ﷺ نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز کے بعد فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت ﷺ نے بحالت بیماری بیٹھ کر نماز پڑھی اور مقتدیوں کی طرف نماز میں ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن وفات کی بیماری میں آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور صحابہ نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، اس سے معلوم ہوا کہ پہلا امر منسوخ ہے (کرماني)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA) the wife of the Prophet: Allah's Apostle (ﷺ) during his illness prayed in his house sitting, whereas some people followed him standing, but the Prophet (ﷺ) beckoned them to sit down. On completion of the prayer he said, "The Imam is to be followed. So, bow when he bows, and raise your head when he raises his head." (See Hadith No. 657 Vol 1 for taking the verdict).