Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The order of following the funeral procession)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1239.
حضرات براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ جن باتوں کا حکم دیا تھا وہ: جنازوں کے ہمراہ جانا، مریض کی عیادت کرنا، دعوت قبول کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، قسم کا پورا کرنا، سلام کاجواب دینا اورچھینکنے والے کے لیے د عا کرنا ہیں۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا وہ: چاندی کے برتنوں کا استعمال اور سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیبا، قز اور استبرق (پہننا) ہیں۔
تشریح:
(1) جن سات چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان میں سے اس حدیث میں صرف چھے کا ذکر ہے، ساتویں چیز ریشمی گدیوں کا استعمال ہے جو سواری کی زین پر رکھی جاتی ہیں۔ اس کا ذکر بھی صحیح بخاری ہی کی حدیث: (5863) میں ہے۔ ان مامورات و منہیات کو ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔ اس مقام پر صرف جنازے میں شریک ہونے کی مشروعیت کو بیان کرنا مقصود ہے، اس کی فضیلت کا بیان آگے آئے گا۔ (2) جنازے کے آگے اور پیچھے دونوں طرف چلنا جائز ہے، لیکن لفظ اتباع کا تقاضا ہے کہ پیچھے پیچھے چلنا افضل ہے۔ علامہ البانی ؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (أحکام الجنائز، ص: 96) اگرچہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ سے جنازے کے آگے چلنا بھی ثابت ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3179) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیمار کی تیمارداری کرو اور جنازوں میں شرکت کرو، وہ تمہیں آخرت یاد دلائیں گے۔‘‘(مسند أحمد: 32/3) حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے، دائیں بائیں اور اس کے قریب ہو کر چل سکتا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3180)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1209
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1239
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1239
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1239
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرات براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ جن باتوں کا حکم دیا تھا وہ: جنازوں کے ہمراہ جانا، مریض کی عیادت کرنا، دعوت قبول کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، قسم کا پورا کرنا، سلام کاجواب دینا اورچھینکنے والے کے لیے د عا کرنا ہیں۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا وہ: چاندی کے برتنوں کا استعمال اور سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیبا، قز اور استبرق (پہننا) ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) جن سات چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان میں سے اس حدیث میں صرف چھے کا ذکر ہے، ساتویں چیز ریشمی گدیوں کا استعمال ہے جو سواری کی زین پر رکھی جاتی ہیں۔ اس کا ذکر بھی صحیح بخاری ہی کی حدیث: (5863) میں ہے۔ ان مامورات و منہیات کو ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔ اس مقام پر صرف جنازے میں شریک ہونے کی مشروعیت کو بیان کرنا مقصود ہے، اس کی فضیلت کا بیان آگے آئے گا۔ (2) جنازے کے آگے اور پیچھے دونوں طرف چلنا جائز ہے، لیکن لفظ اتباع کا تقاضا ہے کہ پیچھے پیچھے چلنا افضل ہے۔ علامہ البانی ؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (أحکام الجنائز، ص: 96) اگرچہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ سے جنازے کے آگے چلنا بھی ثابت ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3179) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیمار کی تیمارداری کرو اور جنازوں میں شرکت کرو، وہ تمہیں آخرت یاد دلائیں گے۔‘‘(مسند أحمد: 32/3) حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے، دائیں بائیں اور اس کے قریب ہو کر چل سکتا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3180)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث بن ابی الثعثاءنے، انہوں نے کہا کہ میں نے معاویہ بن سوید مقرن سے سنا، وہ براءبن عازب ؓ سے نقل کرتے تھے کہ ہمیں نبی کریم ﷺ نے ساتھ کاموں کا حکم دیا اور سات کاموں سے روکا۔ ہمیں آپ ﷺ نے حکم دیا تھا جنازہ کے ساتھ چلنے، مریض کی مزاج پرسی، دعوت قبول کرنے كا، مظلوم کی مدد کرنے کا، قسم پوری کرنے کا، سلام کا جواب دینے کا، چھینک پر یرحمك اللہ کہنے کا اور آپ نے ہمیں منع کیا تھا چاندی کا برتن (استعمال میں لانے) سے، سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشم اور دیباج (کے کپڑوں کے پہننے) سے، قسی سے، استبرق سے۔
حدیث حاشیہ:
دیباج اور قسی اور استبرق یہ بھی ریشمی کپڑوں کی قسمیں ہیں۔ قسی کپڑے شام سے یا مصر سے بن کر آتے اور استبرق موٹا ریشمی کپڑا۔ یہ سب چھ چیزیں ہوئیں۔ ساتویں چیز کا بیان اس روایت میں چھوٹ گیا ہے۔ وہ ریشمی چار جاموں پر سوار ہونا یا ریشمی گدیوں پر جو زین کے اوپر رکھی جاتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' bin 'Azib (RA): Allah's Apostle (ﷺ) ordered us to do seven things and forbade us to do other seven. He ordered us: to follow the funeral procession. to visit the sick, to accept invitations, to help the oppressed, to fulfill the oaths, to return the greeting and to reply to the sneezer: (saying, "May Allah be merciful on you," provided the sneezer says, "All the praises are for Allah,"). He forbade us to use silver utensils and dishes and to wear golden rings, silk (clothes), Dibaj (pure silk cloth), Qissi and Istabraq (two kinds of silk cloths). ________