Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Conveying the news of funeral (procession))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابورافع نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھے خبر کیوں نہ دی۔
1247.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ ایک شخص کی عیادت کیا کرتے تھے۔ وہ رات کے وقت فوت گیا تو لوگوں نے اسے رات ہی کو دفن کردیا۔ جب صبح ہوئی تو انھوں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی۔آپ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے(رات کے وقت ہی) خبر دینے سے تمھیں کس چیز نے باز رکھا؟‘‘ انھوں نے عرض کی: رات کا وقت تھا اور سخت اندھیرا تھا، اس لیے ہم نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح:
اس سے پہلے عنوان میں امام بخاری ؒ نے دوسرے کو موت کی اطلاع دینا بیان کیا تھا اور اس عنوان میں جنازہ تیار ہونے کی خبر دینا بیان کیا گیا ہے، خصوصا ایسے لوگوں کو اطلاع دینا جو بڑی شخصیت کے حامل اور مقتدا و پیشوا ہوں۔ بعض شارحین نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث میں جس شخص کا ذکر ہے، اس سے وہی شخص مراد ہے جس کا ذکر حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں ہوا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں، کیونکہ سیدنا ابو ہریرہ سے مروی حدیث میں ام محجن ؓ نامی عورت کا ذکر ہے جو مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی، جبکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ جس شخص کی بابت خبر دے رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر آ کر اس کی نماز جنازہ پڑھی تھی وہ شخص عورت نہیں بلکہ مرد تھا، لہذا یہ دونوں کسی بھی صورت میں ایک شخص نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں الگ الگ واقعے میں ایک میں عورت کی قبر پر آ کر نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے اور دوسرے میں کسی مرد کی قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني: 78/9، و فتح الباري: 152/3)والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1216
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1247
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1247
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1247
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
جب جنازہ تیار ہو جائے تو لوگوں کو اطلاع دینے میں کوئی حرج نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ معلق روایت پہلے بیان ہو چکی ہے کہ ایک آدمی مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، اسے موت نے آ لیا، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم نے مجھے جنازے کی اطلاع کیوں نہ دی، اب مجھے اس کی قبر کے متعلق بتاؤ، چنانچہ آپ نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھنے کا اہتمام فرمایا۔ (صحیح البخاری، الصلاۃ، حدیث: 458) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنازے کی اطلاع دینا جائز ہے۔
اور ابورافع نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھے خبر کیوں نہ دی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ ایک شخص کی عیادت کیا کرتے تھے۔ وہ رات کے وقت فوت گیا تو لوگوں نے اسے رات ہی کو دفن کردیا۔ جب صبح ہوئی تو انھوں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی۔آپ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے(رات کے وقت ہی) خبر دینے سے تمھیں کس چیز نے باز رکھا؟‘‘ انھوں نے عرض کی: رات کا وقت تھا اور سخت اندھیرا تھا، اس لیے ہم نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور نماز جنازہ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
اس سے پہلے عنوان میں امام بخاری ؒ نے دوسرے کو موت کی اطلاع دینا بیان کیا تھا اور اس عنوان میں جنازہ تیار ہونے کی خبر دینا بیان کیا گیا ہے، خصوصا ایسے لوگوں کو اطلاع دینا جو بڑی شخصیت کے حامل اور مقتدا و پیشوا ہوں۔ بعض شارحین نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث میں جس شخص کا ذکر ہے، اس سے وہی شخص مراد ہے جس کا ذکر حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں ہوا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں، کیونکہ سیدنا ابو ہریرہ سے مروی حدیث میں ام محجن ؓ نامی عورت کا ذکر ہے جو مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی، جبکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ جس شخص کی بابت خبر دے رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر آ کر اس کی نماز جنازہ پڑھی تھی وہ شخص عورت نہیں بلکہ مرد تھا، لہذا یہ دونوں کسی بھی صورت میں ایک شخص نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں الگ الگ واقعے میں ایک میں عورت کی قبر پر آ کر نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے اور دوسرے میں کسی مرد کی قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني: 78/9، و فتح الباري: 152/3)والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو رافع سیدنا ابوہریرۃ ؓ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ذ"تم لوگوں نے مجھے(نماز جنازہ کی) اطلاع کیوں نہ دی۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہیں ابو معاویہ نے خبر دی، انہیں ابو اسحاق شیبانی نے، انہیں شعبی نے، ان سے ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ایک شخص کی وفات ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ اس کی عیادت کو جایا کرتے تھے۔ چونکہ ان کا انتقال رات میں ہوا تھا اس لیے رات ہی میں لوگوں نے انہیں دفن کر دیا اور جب صبح ہوئی تو آنحضور ﷺ کو خبر دی، آپ ﷺ نے فرمایا (کہ جنازہ تیار ہوتے وقت) مجھے بتانے میں (کیا) رکاوٹ تھی؟ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور اندھیرا بھی تھا۔ اس لیے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں آپ کو تکلیف ہو۔ پھر آنحضور ﷺ اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کے نماز جنازہ کے لیے سب کو اطلاع ہونی چاہیے اور اب بھی ایسے مواقع میں جنازہ قبر پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) . A person died and Allah's Apostle (ﷺ) used to visit him. He died at night and (the people) buried him at night. In the morning they informed the Prophet (ﷺ) (about his death). He said, "What prevented you from informing me?" They replied, "It was night and it was a dark night and so we disliked to trouble you." The Prophet (ﷺ) went to his grave and offered the (funeral) prayer. ________