باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیاہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala: "And of knowledge you (mankind) have been given only a little")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
125.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے: میں نبی ﷺ کے ساتھ مدینے کے ویرانے میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی کے سہارے چل رہے تھے۔ راستے میں چند یہودیوں کے پاس سے گزر ہوا۔ انہوں نے آپس میں کہا: ان سے روح کے متعلق سوال کرو۔ ان میں سے ایک نے کہا: تم ان سے ایسا سوال نہ کرو کہ جس کے جواب میں وہ ایسی بات کہیں جو تمہیں ناگوار گزرے۔ بعض نے کہا: ہم تو ضرور پوچھیں گے۔ آخر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ خاموش رہے۔ میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی اتر رہی ہے، چنانچہ میں کھڑا ہو گیا۔ جب وحی کی کیفیت ختم ہو گئی تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی: ’’(اے پیغمبر!) یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے مالک کا حکم ہے۔ اور انہیں بہت کم علم عطا کیا گیا ہے۔‘‘ امام اعمش نے کہا کہ ہماری قراءت میں ایسا (بصیغہ غائب) ہی ہے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد پیش کردہ آیت کا شان نزول بیان کرنا نہیں، کیونکہ وہ اس حیثیت سے کتاب التفسیر میں اسے بیان کریں گے یہاں کتاب العلم میں غالباً اس لیے لائے ہیں کہ ہمیں جو علم ملا ہے اس پر قطعاً مغرور نہیں ہونا چاہے کیونکہ ہماری مجہولات، معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لیے سائل کو چاہیے کہ اسے جب کوئی علمی ضرورت درپیش ہو تو سوال کرنے میں کوئی حجاب نہ ہو اور نہ عالم ہی کو اس کا جواب دینے میں کوئی تکلف مانع ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اس کے سوا کوئی نبی، فرشتہ یا ولی عالم الغیب نہیں۔ 2۔ قران مجید میں لفظ روح کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً: (1)۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے لیے۔ ﴿نـزلَ بِهِ الرُّوحُ الأمِينُ﴾ (الشعراء26: 193) (2)۔ قران مجید کے لیے۔ ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا﴾ (الشوری42: 52)(3)۔ روح انسانی کے لیے۔ ﴿فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا﴾ (تحریم 66: 12) متعلقہ آیت میں روح سے مراد روح انسانی ہے جو پورے بدن میں پھیلی ہوئی ہے اور بدن کی حرکت اس روح کی مرہون منت ہے۔ اس کی حقیقت اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا لہٰذا ہمیں بھی اس کے متعلق لب کشائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 3۔ اس روایت کے آخر میں امام اعمش کی ایک قرآءت کا ذکر ہے کہ انھوں نے اسے غائب کے صیغے سے پڑھا ہے امام اعمش کے ایک شاگرد عبدالواحد اس طرح نقل کرتے ہیں، جبکہ متواتر قراءت مخاطب کے صیغے کے ساتھ ہے۔ حضرت اعمش کے باقی شاگردوں نے جمہور کی قراءت کے مطابق ہی نقل کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4721، و التوحید، حدیث: 7456) امام اعمش کی مذکورہ قرآءت شاذ ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآءت کی چند اقسام ذکرکی ہیں۔ متواتر، مشہور، آحاد، شاذ، موضوع اور مدرج وغیرہ انھوں نے قرآءت شاذ کے سلسلے میں امام اعمش اور یحییٰ بن وثاب کا حوالہ بھی دیا ۔(الإتقان: 75/2-77) 4۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کی شان نزول یہود کا سوال ہے جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار قریش کے سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جو حضرات علوم قرآن سے شغف رکھتے ہیں انھوں نے اسباب نزول کے متعلق بہت نادر اور قیمتی مباحث نقل کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے: (1)۔ سبب نزول کے متعلق اگر مختلف روایات ہیں تو صحیح روایت کا اعتبار ہو گا۔ (2)۔ اگرمتعدد صحیح روایات منقول ہیں تو وجوہ ترجیح کی بنیاد پر کسی ایک کو راجح قراردیا جائے گا۔ (3)۔ اگر صحت اور سبب ترجیح میں مساوی ہوں تو وہاں انھیں جمع کرنے کی کوئی صورت پیدا کی جائے گی۔ 4۔ اگر جمع ممکن نہ ہو تو تعدد نزول پر محمول کیا جائے گا۔ ( مباحث فی علوم القرآن ص:90،91) مذکورہ روایت میں اس آیت کی شان نزول یہود کا سوال بیان ہوا ہے اور یہی راجح ہے، کیونکہ صحیح بخاری کا مقام جامع ترمذی کے مقابلے میں بلند و بالا ہے لیکن اصحاب "تدبر" کے ہاں قرآن فہمی کے لیے احادیث کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ان کے نزدیک احادیث وحی الٰہی ہی ہیں، بالخصوص صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی احادیث کے ساتھ مذاق و استخفاف ان کا محبوب مشغلہ ہے، چنانچہ ان حضرات نے "تدبرحدیث" کی آڑ میں پہلے تو شان نزول کی اہمیت کو کم کیا پھر سورہ بنی اسرائیل کے مکی یا مدنی ہونے کا شاخسانہ کھڑا کیا بعد ازیں امام اعمش کی قرآءت کا مذاق اڑایا آخر میں اس روایت پر بے سروپا ہونے کی پھبتی کسی اور بایں الفاظ اس حدیث کے متعلق زہراگلا ’’البتہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایسی بے سروپا روایت بخاری نے اپنی صحیح میں کیوں لے لی۔‘‘ (تدبر حدیث:225/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
127
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
125
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
125
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
125
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے: میں نبی ﷺ کے ساتھ مدینے کے ویرانے میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی کے سہارے چل رہے تھے۔ راستے میں چند یہودیوں کے پاس سے گزر ہوا۔ انہوں نے آپس میں کہا: ان سے روح کے متعلق سوال کرو۔ ان میں سے ایک نے کہا: تم ان سے ایسا سوال نہ کرو کہ جس کے جواب میں وہ ایسی بات کہیں جو تمہیں ناگوار گزرے۔ بعض نے کہا: ہم تو ضرور پوچھیں گے۔ آخر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ خاموش رہے۔ میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی اتر رہی ہے، چنانچہ میں کھڑا ہو گیا۔ جب وحی کی کیفیت ختم ہو گئی تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی: ’’(اے پیغمبر!) یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے مالک کا حکم ہے۔ اور انہیں بہت کم علم عطا کیا گیا ہے۔‘‘ امام اعمش نے کہا کہ ہماری قراءت میں ایسا (بصیغہ غائب) ہی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد پیش کردہ آیت کا شان نزول بیان کرنا نہیں، کیونکہ وہ اس حیثیت سے کتاب التفسیر میں اسے بیان کریں گے یہاں کتاب العلم میں غالباً اس لیے لائے ہیں کہ ہمیں جو علم ملا ہے اس پر قطعاً مغرور نہیں ہونا چاہے کیونکہ ہماری مجہولات، معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لیے سائل کو چاہیے کہ اسے جب کوئی علمی ضرورت درپیش ہو تو سوال کرنے میں کوئی حجاب نہ ہو اور نہ عالم ہی کو اس کا جواب دینے میں کوئی تکلف مانع ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اس کے سوا کوئی نبی، فرشتہ یا ولی عالم الغیب نہیں۔ 2۔ قران مجید میں لفظ روح کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً: (1)۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے لیے۔ ﴿نـزلَ بِهِ الرُّوحُ الأمِينُ﴾ (الشعراء26: 193) (2)۔ قران مجید کے لیے۔ ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا﴾ (الشوری42: 52)(3)۔ روح انسانی کے لیے۔ ﴿فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا﴾ (تحریم 66: 12) متعلقہ آیت میں روح سے مراد روح انسانی ہے جو پورے بدن میں پھیلی ہوئی ہے اور بدن کی حرکت اس روح کی مرہون منت ہے۔ اس کی حقیقت اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا لہٰذا ہمیں بھی اس کے متعلق لب کشائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 3۔ اس روایت کے آخر میں امام اعمش کی ایک قرآءت کا ذکر ہے کہ انھوں نے اسے غائب کے صیغے سے پڑھا ہے امام اعمش کے ایک شاگرد عبدالواحد اس طرح نقل کرتے ہیں، جبکہ متواتر قراءت مخاطب کے صیغے کے ساتھ ہے۔ حضرت اعمش کے باقی شاگردوں نے جمہور کی قراءت کے مطابق ہی نقل کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4721، و التوحید، حدیث: 7456) امام اعمش کی مذکورہ قرآءت شاذ ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآءت کی چند اقسام ذکرکی ہیں۔ متواتر، مشہور، آحاد، شاذ، موضوع اور مدرج وغیرہ انھوں نے قرآءت شاذ کے سلسلے میں امام اعمش اور یحییٰ بن وثاب کا حوالہ بھی دیا ۔(الإتقان: 75/2-77) 4۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کی شان نزول یہود کا سوال ہے جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار قریش کے سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جو حضرات علوم قرآن سے شغف رکھتے ہیں انھوں نے اسباب نزول کے متعلق بہت نادر اور قیمتی مباحث نقل کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے: (1)۔ سبب نزول کے متعلق اگر مختلف روایات ہیں تو صحیح روایت کا اعتبار ہو گا۔ (2)۔ اگرمتعدد صحیح روایات منقول ہیں تو وجوہ ترجیح کی بنیاد پر کسی ایک کو راجح قراردیا جائے گا۔ (3)۔ اگر صحت اور سبب ترجیح میں مساوی ہوں تو وہاں انھیں جمع کرنے کی کوئی صورت پیدا کی جائے گی۔ 4۔ اگر جمع ممکن نہ ہو تو تعدد نزول پر محمول کیا جائے گا۔ ( مباحث فی علوم القرآن ص:90،91) مذکورہ روایت میں اس آیت کی شان نزول یہود کا سوال بیان ہوا ہے اور یہی راجح ہے، کیونکہ صحیح بخاری کا مقام جامع ترمذی کے مقابلے میں بلند و بالا ہے لیکن اصحاب "تدبر" کے ہاں قرآن فہمی کے لیے احادیث کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ان کے نزدیک احادیث وحی الٰہی ہی ہیں، بالخصوص صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی احادیث کے ساتھ مذاق و استخفاف ان کا محبوب مشغلہ ہے، چنانچہ ان حضرات نے "تدبرحدیث" کی آڑ میں پہلے تو شان نزول کی اہمیت کو کم کیا پھر سورہ بنی اسرائیل کے مکی یا مدنی ہونے کا شاخسانہ کھڑا کیا بعد ازیں امام اعمش کی قرآءت کا مذاق اڑایا آخر میں اس روایت پر بے سروپا ہونے کی پھبتی کسی اور بایں الفاظ اس حدیث کے متعلق زہراگلا ’’البتہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایسی بے سروپا روایت بخاری نے اپنی صحیح میں کیوں لے لی۔‘‘ (تدبر حدیث:225/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، ان سے اعمش سلیمان بن مہران نے ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے علقمہ سے نقل کیا، انھوں نے عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپؐ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ ﷺ سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ ﷺ نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی ’’ (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔‘‘ (اس لیے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے) اعمش کہتے ہیں کہ ہماری قرات میں"ومااوتوا" ہے۔ "ومااوتیتم" نہیں۔
حدیث حاشیہ:
چونکہ توارۃ میں بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک چیز ہے، اس لیے یہودی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی توراۃ کے مطابق ہے یا نہیں؟ یا روح کے سلسلہ میں یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دور ازکار باتیں کہتے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ سے مکہ شریف میں بھی کیا گیا تھا، پھر مدینہ کے یہودی نے بھی اسے دہرایا۔ اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کئے ہوتی ہے۔ روح کے بارے میں ستراقوال ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں ان پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ روح خالص ایک لطیف شئے ہے، اس لیے ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھرپور ہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہوسکتے، اکابراہل سنت کی یہی رائے ہے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ روح کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، بعض علماء کی رائے ہے کہ من أمر ربي سے مراد روح کا عالم امر سے ہونا ہے جو عالم ملکوت ہے، جمہور کا اتفاق ہے کہ روح حادث ہے جس طرح دوسرے تمام اجزا حادث ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ کا منشائے باب یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم فاضل محدث مفسر بن جائے مگر پھر بھی انسانی معلومات کا سلسلہ بہت محدود ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ جملہ علوم پر حاوی ہوچکا ہے ، إلا من شاء اللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): While I was going with the Prophet (ﷺ) through the ruins of Madinah and he was reclining on a date-palm leaf stalk, some Jews passed by. Some of them said to the others: Ask him (the Prophet) about the spirit. Some of them said that they should not ask him that question as he might give a reply which would displease them. But some of them insisted on asking, and so one of them stood up and asked, "O Aba-l-Qasim! What is the spirit?" The Prophet (ﷺ) remained quiet. I thought he was being inspired divinely. So I stayed till that state of the Prophet (ﷺ) (while being inspired) was over. The Prophet (ﷺ) then said, "And they ask you ( O Muhammad (ﷺ) ) concerning the spirit --Say: The spirit -- its knowledge is with my Lord. And of knowledge you (mankind) have been given only a little)." (17.85)