باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص بعض باتوں کو اس خوف سے چھوڑ دے کہ کہیں لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے زیادہ سخت(یعنی ناجائز)باتوں میں مبتلا نہ ہوجائیں
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whosoever left some optional things simply for the fear that some people may not be able to understand them and may fall into something more difficult)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
126.
حضرت اسود سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے فرمایا: حضرت عائشہ ؓ تجھ سے بہت راز کی باتیں فرمایا کرتی تھیں تو کعبے کے متعلق انہوں نے تجھ سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ میں نے کہا: مجھ سے انہوں نے یہ کہا تھا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! اگر تیری قوم کے لوگوں کا زمانہ قریب نہ ہوتا ۔۔ ابن زبیر نے کہا: یعنی کفر (جاہلیت) کے قریب نہ ہوتا (نئے نئے اسلام میں داخل نہ ہوئے ہوتے) ۔۔ تو میں کعبے کی اس تعمیر کو منہدم کر دیتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا: ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے۔‘‘ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے (اپنے دورِ حکومت میں) ایسا ہی کر دیا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود علمائے کرام کو تنبیہ فرمانا ہے کہ ان حضرات کو عوام کے سامنے ہراس جائز عمل سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے غلط فہمی کا اندیشہ ہو ممکن ہے کہ جس عمل کو جائز اور مستحب خیال کر کے کیا جارہا ہو، وہ مصلحت عامہ کے خلاف ہو اور اس عمل کے اختیار کرنے میں بجائے فائدے کے نقصان ہو، وہ علماء سے متنفر ہو جائیں اور ان کے قریب آنے کے بجائے ان سے دور ہو جائیں، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کی ذہن سازی کی جائے مثلاً جوتے سمیت نماز پڑھنا سنت ہے لیکن اگر کسی جگہ لوگ جاہل ہوں اور ایسا کام کرنے سے اختلاف اور فساد کا اندیشہ ہو تو ایسی سنت پر عمل کرنے کو آئندہ کے لیے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حکیمانہ انداز سے انھیں اس کی اہمیت بتاتے رہنا ایک داعی کا اہم فریضہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دین کے ضروری کام عوام کے ردعمل کے ڈر سے مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر بت شکنی کے عمل کو کسی رد عمل کے ڈرسے مؤخر نہیں کیا یعنی ہر بات اور کام کے کرنے کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے لیکن یہ کلیہ فرائض و واجبات کے لیے نہیں، انھیں بروقت ہی بجالانا ضروری ہے۔ 2۔ واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کو تعمیر کیا تھا اس کی سطح زمین کے برابر تھی اور اس کے دو دروازے تھے۔ ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکلتے تھے تاکہ بھیڑ نہ ہو۔ لیکن جب قریش نے اس کی از سر نو تعمیر کی تو اپنے امتیازات اور اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے دو تصرف کیے: (1)۔ اسے سطح زمین سے کافی اونچا کردیا تاکہ سیڑھی کے بغیر کوئی اندر داخل نہ ہو سکے اس کے لیے ان کا محتاج رہے۔ (2)۔ اس کا دروازہ ایک کردیا اور اس پر بھی اپنا آدمی بٹھا دیا تاکہ کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر اندر نہ جا سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ اسے بنائے ابراہیمی کے مطابق کردیا جائے۔ لیکن اندیشہ تھا کہ قریش کے نومسلم حضرات اسے کہیں اپنے وقار کا مسئلہ نہ بنالیں اور آپ پر ناموری و تفاخر کا شبہ کریں کہ آپ نے قریش کے مشترکہ حق کو اپنی ذات کے لیے خاص کر لیا ہے۔ جب حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کا علم، ہوا تو انھوں نے اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے مطابق کردیا لیکن حجاج بن یوسف نے دوبارہ پھر اسی قریشی نقشے کے مطابق کردیا۔ 3۔ تاریخی اعتبار سے بیت اللہ کی تعمیر سات مرتبہ ہوئی ہے سب سے پہلے فرشتوں نے اسے تعمیر کیا، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ فضیلت حاصل کی، اس کے بعد عمالقہ، پھر جرہم، پھر قریش نے تعمیر کیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کشف ستر(جسم سے چادر کے اترجانے) کا واقعہ پیش آیا جس پر آپ بے ہوش ہو کر گرپڑے تھے۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شرف حاصل کیا۔ آخر میں حجاج بن یوسف نے اسے قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔ اب بیت اللہ اسی آخری تعمیر پر قائم ہے۔ (عمدۃ القاری:2 /288)۔ 4۔ صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے جب بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کیا تو اخراجات کے لیے وافر رقم مہیا نہ ہو سکی اس بنا پر انھوں نے حطیم کا حصہ کھلا چھوڑ دیا۔ باقی حصے پر چھت ڈال دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی چاہتے تھے کہ پانچ چھ ہاتھ حطیم کے حصے پر بھی چھت ڈال دی جائے لیکن آپ کے پاس ان اخراجات کے لیے رقم نہ تھی اور نئے نئے مسلمانوں کے جذبات کا بھی خیال تھا۔ اس بنا پر آپ نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ بیت اللہ کی تعمیر کا مسئلہ نہ چھیڑا جائے۔ ( صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3245،(1333))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
128
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
126
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
126
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
126
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اگر کسی کے مختار مسلک کی اشاعت سے عوام الناس میں ہیجان پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو اس سے احتراز کرناچاہیے تاکہ علماء کے متعلق لوگوں میں بد گمانی پیدا نہ ہو۔
حضرت اسود سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے فرمایا: حضرت عائشہ ؓ تجھ سے بہت راز کی باتیں فرمایا کرتی تھیں تو کعبے کے متعلق انہوں نے تجھ سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ میں نے کہا: مجھ سے انہوں نے یہ کہا تھا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! اگر تیری قوم کے لوگوں کا زمانہ قریب نہ ہوتا ۔۔ ابن زبیر نے کہا: یعنی کفر (جاہلیت) کے قریب نہ ہوتا (نئے نئے اسلام میں داخل نہ ہوئے ہوتے) ۔۔ تو میں کعبے کی اس تعمیر کو منہدم کر دیتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا: ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے۔‘‘ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے (اپنے دورِ حکومت میں) ایسا ہی کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود علمائے کرام کو تنبیہ فرمانا ہے کہ ان حضرات کو عوام کے سامنے ہراس جائز عمل سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے غلط فہمی کا اندیشہ ہو ممکن ہے کہ جس عمل کو جائز اور مستحب خیال کر کے کیا جارہا ہو، وہ مصلحت عامہ کے خلاف ہو اور اس عمل کے اختیار کرنے میں بجائے فائدے کے نقصان ہو، وہ علماء سے متنفر ہو جائیں اور ان کے قریب آنے کے بجائے ان سے دور ہو جائیں، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کی ذہن سازی کی جائے مثلاً جوتے سمیت نماز پڑھنا سنت ہے لیکن اگر کسی جگہ لوگ جاہل ہوں اور ایسا کام کرنے سے اختلاف اور فساد کا اندیشہ ہو تو ایسی سنت پر عمل کرنے کو آئندہ کے لیے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حکیمانہ انداز سے انھیں اس کی اہمیت بتاتے رہنا ایک داعی کا اہم فریضہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دین کے ضروری کام عوام کے ردعمل کے ڈر سے مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر بت شکنی کے عمل کو کسی رد عمل کے ڈرسے مؤخر نہیں کیا یعنی ہر بات اور کام کے کرنے کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے لیکن یہ کلیہ فرائض و واجبات کے لیے نہیں، انھیں بروقت ہی بجالانا ضروری ہے۔ 2۔ واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کو تعمیر کیا تھا اس کی سطح زمین کے برابر تھی اور اس کے دو دروازے تھے۔ ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکلتے تھے تاکہ بھیڑ نہ ہو۔ لیکن جب قریش نے اس کی از سر نو تعمیر کی تو اپنے امتیازات اور اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے دو تصرف کیے: (1)۔ اسے سطح زمین سے کافی اونچا کردیا تاکہ سیڑھی کے بغیر کوئی اندر داخل نہ ہو سکے اس کے لیے ان کا محتاج رہے۔ (2)۔ اس کا دروازہ ایک کردیا اور اس پر بھی اپنا آدمی بٹھا دیا تاکہ کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر اندر نہ جا سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ اسے بنائے ابراہیمی کے مطابق کردیا جائے۔ لیکن اندیشہ تھا کہ قریش کے نومسلم حضرات اسے کہیں اپنے وقار کا مسئلہ نہ بنالیں اور آپ پر ناموری و تفاخر کا شبہ کریں کہ آپ نے قریش کے مشترکہ حق کو اپنی ذات کے لیے خاص کر لیا ہے۔ جب حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کا علم، ہوا تو انھوں نے اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے مطابق کردیا لیکن حجاج بن یوسف نے دوبارہ پھر اسی قریشی نقشے کے مطابق کردیا۔ 3۔ تاریخی اعتبار سے بیت اللہ کی تعمیر سات مرتبہ ہوئی ہے سب سے پہلے فرشتوں نے اسے تعمیر کیا، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ فضیلت حاصل کی، اس کے بعد عمالقہ، پھر جرہم، پھر قریش نے تعمیر کیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کشف ستر(جسم سے چادر کے اترجانے) کا واقعہ پیش آیا جس پر آپ بے ہوش ہو کر گرپڑے تھے۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شرف حاصل کیا۔ آخر میں حجاج بن یوسف نے اسے قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔ اب بیت اللہ اسی آخری تعمیر پر قائم ہے۔ (عمدۃ القاری:2 /288)۔ 4۔ صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے جب بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کیا تو اخراجات کے لیے وافر رقم مہیا نہ ہو سکی اس بنا پر انھوں نے حطیم کا حصہ کھلا چھوڑ دیا۔ باقی حصے پر چھت ڈال دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی چاہتے تھے کہ پانچ چھ ہاتھ حطیم کے حصے پر بھی چھت ڈال دی جائے لیکن آپ کے پاس ان اخراجات کے لیے رقم نہ تھی اور نئے نئے مسلمانوں کے جذبات کا بھی خیال تھا۔ اس بنا پر آپ نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ بیت اللہ کی تعمیر کا مسئلہ نہ چھیڑا جائے۔ ( صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3245،(1333))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے اسرائیل کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے ابواسحاق سے اسود کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر ؓ نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا (ہاں) مجھ سے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم (دور جاہلیت کے ساتھ) قریب نہ ہوتی (بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی) ابن زبیر ؓ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، (بعد میں) ابن زبیر نے یہ کام کیا۔
حدیث حاشیہ:
قریش چونکہ قریبی زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے، اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً کعبہ کی نئی تعمیر کو ملتوی رکھا، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سن کر کعبے کی دوبارہ تعمیر کی اور ا س میں دو دروازے ایک شرقی اور ایک غربی جانب نکال دئیے، لیکن حجاج نے پھر کعبہ کو توڑ کر اسی شکل پر قائم کردیا۔ جس پر عہد جاہلیت سے چلا آ رہا تھا۔ اس باب کے تحت حدیث لانے کا حضرت امام کا منشا یہ ہے کہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر کعبہ کا توڑنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتوی فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگرفتنہ و فساد پھیل جانے کا یا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تو وہاں مصلحتاً کسی مستحب کام کوترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ سنت نبوی کا معاملہ الگ ہے۔ جب لوگ اسے بھول جائیں تویقیناً اس سنت کے زندہ کرنے والوں کو سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس طرح ہندوستانی مسلمان ایک مدت سے جہری نمازوں میں آمین بالجہر جیسی سنت نبوی کو بھولے ہوئے تھے کہ اکابر اہل حدیث نے ازسرنو اس سنت نبوی کو زندہ کیا اور کتنے لوگوں نے اس سنت کو رواج دینے میں بہت تکلیف برداشت کی، بہت سے نادانوں نے اس سنت نبوی کا مذاق اڑایا اور اس پر عمل کرنے والوں کے جانی دشمن ہوگئے، مگران بندگان مخلصین نے ایسے نادانوں کی باتوں کو نظر انداز کرکے سنت نبوی کو زندہ کیا، جس کے اثرمیں آج اکثر لوگ اس سنت سے واقف ہو چکے ہیں اور اب ہر جگہ اس پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ پس ایسی سنتوں کا مصلحتاً ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے: «مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي فَلَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيدٍ» ’’جو کوئی فساد کے وقت میری سنت کو لازم پکڑے گا اس کو سوشہیدوں کا ثواب ملے گا۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aswad (RA): Ibn Az-Zubair said to me, "Aisha used to tell you secretly a number of things. What did she tell you about the Ka’bah?" I replied, "She told me that once the Prophet (ﷺ) said, 'O 'Aisha! Had not your people been still close to the pre-Islamic period of ignorance (infidelity)! I would have dismantled the Ka’bah and would have made two doors in it; one for entrance and the other for exit." Later on Ibn Az-Zubair did the same.