باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا اور کسی پر سوگ کرنا کیسا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The mooring of a woman for a dead person other than her husband)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1279.
محمد بن سیرین ؒ سے روایت ہے کہ حضرت ام عطیہ ؓ کا بیٹا فوت ہوگیا، جب تیسرا دن ہوا، تو انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگوائی اور اسے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ ہمیں خاوند کے علاوہ کسی دوسرے پرتین دن سے زیادہ سوگ منانے سے منع کیا گیا ہے۔
تشریح:
(1) غم و الم کی وجہ سے عورتوں کا ترک زینت کرنا سوگ کہلاتا ہے۔ موت کی وجہ سے سوگ کرنا بالاتفاق مشروع ہے۔ پھر یہ سوگ حق زوج کی وجہ سے واجب ہے اور دوسروں کی وفات کی بنا پر جائز ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شدتِ غم و الم کی وجہ سے خاوند کے علاوہ کسی بھی دوسری عزیز و قریبی کے لیے بھی سوگ ہو سکتا ہے۔ شارع ؑ نے اسے جائز قرار دیا ہے، واجب نہیں۔ اور یہ تین دن سے زیادہ جائز نہیں۔ ان دنوں میں اگر خاوند اس سے اپنی خواہش کا اظہار کرے تو اسے پورا کرنا اس کی ذمہ داری ہے، اس سوگ کو بطور آڑ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان میں غير زوج کے الفاظ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ خاوند کے سوا فوت ہونے والا شخص کوئی قریبی رشتہ دار ہو تب ہی سوگ جائز ہے بلکہ کسی اجنبی تعلق دار کی وفات پر بھی سوگ کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 187/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1247
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1279
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1279
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1279
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
محمد بن سیرین ؒ سے روایت ہے کہ حضرت ام عطیہ ؓ کا بیٹا فوت ہوگیا، جب تیسرا دن ہوا، تو انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگوائی اور اسے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ ہمیں خاوند کے علاوہ کسی دوسرے پرتین دن سے زیادہ سوگ منانے سے منع کیا گیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) غم و الم کی وجہ سے عورتوں کا ترک زینت کرنا سوگ کہلاتا ہے۔ موت کی وجہ سے سوگ کرنا بالاتفاق مشروع ہے۔ پھر یہ سوگ حق زوج کی وجہ سے واجب ہے اور دوسروں کی وفات کی بنا پر جائز ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شدتِ غم و الم کی وجہ سے خاوند کے علاوہ کسی بھی دوسری عزیز و قریبی کے لیے بھی سوگ ہو سکتا ہے۔ شارع ؑ نے اسے جائز قرار دیا ہے، واجب نہیں۔ اور یہ تین دن سے زیادہ جائز نہیں۔ ان دنوں میں اگر خاوند اس سے اپنی خواہش کا اظہار کرے تو اسے پورا کرنا اس کی ذمہ داری ہے، اس سوگ کو بطور آڑ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان میں غير زوج کے الفاظ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ خاوند کے سوا فوت ہونے والا شخص کوئی قریبی رشتہ دار ہو تب ہی سوگ جائز ہے بلکہ کسی اجنبی تعلق دار کی وفات پر بھی سوگ کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 187/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسددبن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلمہ بن علقمہ نے اور ان سے محمد بن سیرین نے کہ ام عطیہ ؓ کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے تیسرے دن انہوں نے صفرہ خلوق (ایک قسم کی زرد خوشبو) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Sirin (RA): One of the sons of Um 'Atiyya died, and when it was the third day she asked for a yellow perfume and put it over her body, and said, "We were forbidden to mourn for more than three days except for our husbands."